اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
انہیں غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے۔ امام ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اس آیت سے نادار کے نکاح کی دلیل ملتی ہے، کوئی ہرگز یہ نہ کہے کہ میرے پاس مال نہیں ہے؛ اس لئے میں نکاح نہیں کرسکتا، انسان کا رزق اور اس کے اہل وعیال کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ حضور اکرم انے نکاح کی از خود پیش کش کرنے والی خاتون کا نکاح ایسے نادار مرد سے کیا تھا جس کے پاس ایک تہبند کے سوا کچھ نہ تھا‘‘۔ (احکام القرآن ۳؍۳۶۰) مفسر ابوالسعودؒ رقم طراز ہیں : ’’مرد وعورت میں سے کسی ایک کا فقر کسی بھی حال میں سنت نکاح کی ادائیگی سے مانع نہ ہونا چاہئے؛ اس لئے کہ اللہ کے فضل سے بڑی کوئی چیز نہیں ، دولت آنی جانی چیز ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے سان وگمان نوازتا ہے‘‘۔ (تفسیر ابی السعود ۴؍۵۶) حضرت ابوبکر صدیق صنے فرمایا: ’’اے مسلمانو! اللہ نے تم کو نکاح کا جو حکم دیا ہے، بے چون وچرا اس کی تعمیل کرو، اس کے نتیجے میں اللہ نے آیت قرآنی (مذکورہ) میں تونگری کا جو وعدہ فرمایا ہے، ضرور پورا کرے گا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۳۸۷) حضرت عمر فاروق ص فرماتے ہیں : ’’اس آیت کے بعد تو معاشرے میں کوئی بے نکاح موجود ہی نہ رہنا چاہئے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ سنتِ نکاح کی ادائیگی کرکے اللہ کا رزق اور مال حاصل کرے‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص ۳؍۳۲۰) علامہ عثمانیؒ نے خوب لکھا ہے: ’’بعض لوگ نکاح میں اس لئے پس وپیش کرتے ہیں کہ نکاح ہوجانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا؟ انہیں سمجھادیا کہ ایسے موہوم خطرات پر نکاح سے مت رکو، روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے، کیا معلوم ہے کہ خدا چاہے تو میاں بیوی ہی کی قسمت سے تمہارے رزق میں کشائش کردے، نہ مجرد رہنا غنا کا موجب ہے اور نہ نکاح کرنا فقر وافلاس