اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ اِمْرَأَۃً صَالِحَۃً، فَقَدْ اَعَانَہٗ عَلیٰ شَطْرِ دِیْنِہٖ، فَلِیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِیْ۔ (المستدرک ۲؍۱۶۱) ترجمہ: جسے اللہ نیک بیوی عطا فرمائے تو اس کا نصف دین مکمل ہوجاتا ہے، اب باقی نصف میں اسے اللہ سے ڈرنا ہے۔ مزید ارشاد ہے: اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدْ اِسْتَکْمَلَ الدِّیْنَ، فَلِیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ۔ (الترغیب والترہیب ۳؍۴۲) ترجمہ: جب بندہ شادی کرلیتا ہے تو وہ اپنا نصف دین مکمل کرلیتا ہے، پھر اسے باقی نصف کے بارے میں اللہ سے ڈرناچاہئے۔ واقعہ یہ ہے کہ بالعموم گناہوں کا صدور وارتکاب منہ اور شرم گاہ سے ہوتا ہے، اسی لئے ان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: مَنْ وَقَاہُ اللّٰہُ شَرَّ اثْنَتَیْنِ وَلَجَ الْجَنَّۃَ: مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ۔ (تفسیر قرطبی ۹؍۳۲۷ بحوالہ مؤطا) ترجمہ: جسے اللہ جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان، اور پیروں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کے شر سے بچالے وہ جنت میں جائے گا۔ جب انسان نکاح کرلیتا ہے تو شرم گاہ کے شر سے عموماً محفوظ ہوجاتا ہے، اب اسے صرف منہ کے شر سے اپنی حفاظت کرنی ہے، گویا اس نے معصیت کا ایک دروازہ بند کرکے آدھا دین مکمل کرلیا، اب اسے منہ کی حفاظت کرکے معصیت کا دوسرا دروازہ بند کرنا اور باقی آدھے دین کو مکمل کرنا ہے، اسی لئے حضرت طاؤس کا فرمان ہے: لاَ یَتِمُّ نُسُکُ الشَّابِّ حَتّٰی یَتَزَوَّجَ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ۴؍۱۲۷) ترجمہ: نوجوان کی عبادت نکاح کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔