اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سب سے بڑی برکت سکونِ دل اور راحت قلب کی دولت گراں مایہ ہے، نکاح کو ذریعۂ محبت ورحمت بنایا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ مرد وزن کا ازدواجی ربط صرف مذہبی اور قانونی ہی نہیں ہوتا؛ بلکہ قلبی وطبعی بھی ہوتا ہے۔ مفسرین کے بقول محبت کا تعلق زمانۂ شباب سے اور رحمت کا تعلق بڑھاپے سے ہوتا ہے۔ شباب کے عالم میں مرد وزن محبت کی راہ پر چلتے ہیں ، اور بڑھاپے میں یہ محبت، طبعی رحمت وترحم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بقول آیت مذکورہ میں محبت ومودت سے جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تسکین کی طرف، اور رحمت سے اولاد کی طرف اشارہ ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر قرطبی ۱۴؍۱۷) یہی تفسیر حضرت حسن بصریؒ سے بھی منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر ابی السعود ۴؍۳۵۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ حیات انسانی میں سکون سب سے بیش قیمت دولت ہے، اور اس دولت کا حصول نکاح کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ارشاد قرآنی ہے: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا۔ (الاعراف: ۱۸۹) ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا؛ تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ غور کیا جائے تو نکاح کی معنویت کے اظہار کے لئے ’’سکون‘‘ سے زیادہ جامع کوئی لفظ ہو ہی نہیں سکتا، جس کے ذیل میں قلبی، طبعی، ذہنی، جسمانی، دماغی، جنسی وصنفی ہرقسم کا سکون آجاتا ہے، اور اسی کو سورۃ الفرقان میں {قرۃ اعین} (آنکھوں کی ٹھنڈک) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کے اوصاف میں ان کی یہ دعا بھی مذکور ہے: رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ۔ (الفرقان: ۷۴) ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے