اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
مَا مِنْ عَبْدٍ یَزْنِیْ اِلاَّ نَزَعَ اللّٰہُ مِنْہُ نُوْرَ الْاِیْمَانِ۔ (نضرۃ النعیم ۱۰؍۴۵۸۲) ترجمہ: جو بندہ زنا کرتا ہے اللہ اس کا نورِ ایمانی سلب فرمالیتا ہے۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں : لَا یَکُوْنُ ہٰذَا مُؤْمِناً تَاماًّ، وَلَا یَکُوْنُ لَہٗ نُوْرُ الْاِیَمَانِ۔ (مشکاۃ المصابیح: باب الکبائر ۱۷) ترجمہ: زناکار کامل مؤمن نہیں ہوتا، اور اسے ایمان کا نور حاصل نہیں رہتا۔ حضرت ابوہریرہ صکی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دوسری روایت ہے: اِذَا زَنَی الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْہُ الْاِیْمَانُ، فَکَانَ فَوْقَ رَأْسِہٖ کَالظُّلَّۃِ، فَاِذَا خَرَجَ مِنْ ذٰلِکَ الْعَمَلِ رَجَعَ اِلَیْہِ الْاِیْمَانُ۔ (مشکاۃ المصابیح: باب الکبائر ۱۸، بحوالہ: ترمذی وابوداؤد) ترجمہ: جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس (کے قلب) سے ایمان نکل جاتا ہے، اور اس کے سر کے اوپر سائبان کی طرح آجاتا ہے، پھر جب وہ اس کام سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے۔ (بعض روایات میں توبہ کی شرط بھی ہے) ایک روایت میں ہے: مَنْ زَنیٰ خَرَجَ مِنْہُ الْاِیْمَانُ، فَاِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔ (فتح الباری ۱۲؍۶۲، بحوالہ طبرانی) ترجمہ: جو زنا کرتا ہے اس کا ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ (اور اس کا ایمان لوٹ آتا ہے)