اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ہے، جسے ضغطۂ قبر کہا جاتا ہے۔ حضرت سعد بن معاذ صکا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہٰذَا وَالَّذِیْ تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَہٗ اَبْوَابُ السَّمَائِ، وَشَہِدَہٗ سَبْعُوْنَ اَلْفاً مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْہُ۔ (نسائی: کتاب الجنائز، باب ضمۃ القبر وضغطتہ) سعد کے لئے بخدا عرش الٰہی حرکت میں آگیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے، ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہوئے، ان کو قبر میں یک بارگی بھینچا گیا، پھر یہ کیفیت ختم ہوگئی۔ طبقات ابن سعد میں منقول ہے کہ حضرت سعد صکو دفن کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر ضغطۂ قبر سے کوئی بچ سکتا تو سعد بچ جاتے، مگر ان کو بھی قبر میں دبایا گیا۔ (نسائی: حاشیۃ السندی حاشیہ ۶ص۲۲۴) بیہقی میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سعد کو قبر میں دبایا گیا، بے حد دبایا گیا، میں نے دعا کی، تب یہ کیفیت دور ہوئی۔ (ایضاً) علامہ سندھیؒ نے لکھا ہے: ’’قبر کی تنگی اور دباؤ اس لئے ہوتا ہے کہ انسان اصلاً مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، مرنے کے بعد پھر مٹی میں دفن ہوتا ہے، ایک عرصہ مٹی سے جدا رہنے کے بعد جب وہ مٹی میں دفن ہوتا ہے تو مٹی اسے بھینچتی ہے اور دباتی ہے، جیسے باپ طویل عرصے کے بعد ملنے والی اولاد کو دباتا ہے، نیک انسان کو مٹی محبت اور نرمی سے دباتی ہے، جب کہ بدکار وگنہ گار کو سختی اور غصے سے سزا کے طور پر دباتی ہے‘‘۔ (ایضاً) امام ابوالقاسم سعدی کے بقول: ’’ضغطۂ قبر سے نہ کوئی نیک محفوظ رہتا ہے نہ کوئی بد، مگر فرق یہ ہے کہ کافر کے لئے قبر میں یہ تنگی اور دباؤ کی حالت دائمی رہتی ہے، جب کہ مؤمن کے لئے یہ حالت عارضی ہوتی ہے، پھر کچھ دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ (ایضاً)