اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
روک دے، تو کیا تم اس سے باز رہوگے؟ اس آیت کی تفسیر میں حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے شراب کی دو خرابیاں بیان کی ہیں : دینی اور دنیوی: دنیوی خرابی شراب میں یہ ہے کہ شرابی لوگوں سے جھگڑتا اور ان پر زیادتی کرتا ہے، اور دینی خرابی یہ ہے کہ شرابی نفس کے تقاضوں میں گھستا چلاجاتا ہے، اور اس کی وہ عقل ہی ناکارہ ہوجاتی ہے جو نیکیوں کی بنیاد ہے۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ ۵؍۳۳۰) حضرت ابوالدرداء ص کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکید فرمائی: لَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ؛ فِاِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ۔ (صحیح ابن ماجہ للالبانی ۲؍۲۴۱) ترجمہ: شراب مت پیو؛ اس لئے کہ وہ ہر شر کی کنجی ہے۔ شراب کو ام الخبائث والفواحش (تمام گناہوں کی جڑ) اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا عادی کسی گناہ میں باک نہیں کرتا۔ حضرت عثمان بن عفان ص نے ارشاد فرمایا کہ شراب سے بچو، وہ ہر گناہ کی جڑ ہے، پچھلی امتوں میں ایک عبادت گذار آدمی تھا جو عورتوں سے بالکل الگ رہتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اور کسی بہانے سے اسے گھر کے اندر لے گئی، اور ایک خوب صورت نوجوان لڑکی کو سامنے کرکے کمرہ بند کردیا، اس کمرے میں شراب کا مٹکا بھی تھا اور ایک کم سن بچہ بھی تھا، لڑکی نے اس عابد کے سامنے کہا کہ اگر تم نجات اور رسوائی سے بچاؤ چاہتے ہو تو تین کاموں میں سے ایک کام کرنا ہوگا: (۱) یا تو شراب کا جام پیو (۲) یا اس بچے کو قتل کرو (۳) یا زنا کرو۔ اس عابد نے زنا اور قتل کو زیادہ سنگین اور شراب کو نسبۃً کم خطرناک سمجھ کر شراب پینا منظور کرلیا، شراب کا ایک جام پی کر ایسا مست ہوا کہ پھر جام پر جام پیتا گیا، اور نشہ اس قدر چھاگیا کہ پھر بچے کو قتل بھی کیا اور زنا بھی کیا، شراب کی عادت انسان کو اسی طرح رسوا کرتی ہے، اور بسا اوقات ایمان سے بھی محروم کردیتی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق ۹؍۲۳۶)