اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
قولی، فعلی، تقریری وتحریری اور تصویری ولباسی مظاہرے آجاتے ہیں ، اور عریاں ونیم عریاں ملبوسات وتصاویر، فحش ونیم فحش شاعری، رقص وسرود، سنیما، ٹی وی سب پر بندش عائد ہوجاتی ہے، اور اسی عموم میں منع حمل، فیملی پلاننگ اور اسقاطِ حمل پر بھی روک لگ جاتی ہے، جس سے فطری طور پر زنا کے دروازے کھلتے اور حرام کاری پر جسارت ودیدہ دلیری افزوں ہوتی جاتی ہے۔ قرآن کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں حرمت زنا کی دو وجہیں بتائی گئی ہیں : (۱) زنا بے حیائی کا عمل ہے، اور بے حیائی ہر چیز سے محرومی کا ذریعہ ہے اور ایمان پر شب خون مارنے والی چیز ہے۔ (۲) زنا معاشرتی فساد کی تخم ریزی کرنے والا جرم ہے جو صالح معاشرے کی جڑ پر حملہ آور ہوتا ہے، اس سے تباہی اور عداوت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں ، اور حقوق العباد متأثر ہوتے ہیں ، اسی لئے ایک دوسرے مقام پر آیا ہے: اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتاً، وَسَآئَ سَبِیْلاً۔ (النساء: ۲۲) ترجمہ: درحقیقت زنا بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ اور برا چلن ہے۔ امام رازیؒ کے بقول اس آیت میں زنا کے قبح شرعی، قبح عقلی اورقبح عرفی تینوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ خداوند قدوس چوں کہ اپنے بندوں پر بے حد شفیق ورحیم ہے،اس لئے جب اللہ کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کے مقدمات ومبادی کی صراحت کرکے ان پر بھی روک لگاتا ہے؛ تاکہ بندے کے لئے حرام سے بچنا آسان رہے۔ ایک مفکر کے بقول: ’’شریعت کسی برائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پر اکتفا نہیں کرتی؛ بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہوں ، یا اس کے لئے مواقع بہم پہنچاتے ہوں ، یا اس پر مجبور کردیتے ہوں ، نیز شریعت جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور وسائل وذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے؛ تاکہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے