تزکیہ نفس و اصلاح باطن ۔ ضرورت ، اہمیت ، طریقہ کار |
کاتیب ۔ |
|
بیعت کاثبوت حدیث پاک سے آج کل اس قسم کا رحجان ہوتاجارہا ہے اور عام طورپر تصوف اور سلوک کے منکرین لوگوں کو گمراہ کرنے کے واسطے کہتے ہیں کہ مشائخ کے یہاں جو بیعت کا سلسلہ جاری ہے یہ بدعت ہے ، یہ حقیقت ہے کہ ایک جماعت نے اس کو صرف رسم کا درجہ دے رکھا ہے اور دست بوسی اور ندرانہ وصول کرنا ہی ان کا مقصود ہے، نہ مرید کو پیر کی خبر اور نہ پیر کو مرید کی فکر ، لیکن ایک مخصوص طبقہ کی اس غلط کاری کی بناپر سرے سے اس کا انکار کردینا اور اس کوبدعت اور گمراہی کہنا یہ صحیح نہیں ۔ ذیل کی حدیث سے یہ واضح ہوجائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس قسم کی بیعت لی ہے۔ عن عوف بن مالک الاُشجعی قال کنا عند النبی ؓﷺ تسعۃ اوثمانیۃ او سبعۃ فقال ألا تبایعون رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فبسطنا ایدینا وقلنا علی مانبا یعک یارسول اللہ ﷺ قال علی أن تعبدواللہ ولا تشرکوابہ شیئاً وتصلو الصلواۃ الخمس وتسمعوا وتطیعوا(الحدیث) (مسلم ، ابوداؤد، نسائی) حضرت عوف ابن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نو یا آٹھ یا سات آدمی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے رسول سے بیعت کیوں نہیں کرتے ہم نے اپنے ہاتھ پھیلادیئے اور عرض کیا کہ ہم کس چیز پر بیعت کریں آپ نے فرمایا اس پر کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کروگے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤگے، پانچوں وقت کی نماز پڑھوگے، احکام سنو گے اور اطاعت کروگے۔(مختصراً)