تزکیہ نفس و اصلاح باطن ۔ ضرورت ، اہمیت ، طریقہ کار |
کاتیب ۔ |
|
تزکیہ نفس کا طریقہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : تزکیہ نفس کا لفظ آج عام طور پر زبان پر جاری ہے ۔ اور ہر شخص اپنے لئے اس کا طالب ہے میرا خیال یہ ہے کہ نہ تو اس کا صحیح مفہوم آج لوگوں کے ذہنوں میں رہ گیا ہے اور نہ ہی اس کا صحیح طریق کا راختیار کیا جاتا ہے ، ظاہر ہے کہ پھر یہ درجہ حاصل ہو تو کیسے ہو ، بس آج یہ ایک لفظ بے معنی سا ہوکررہ گیا ہے ۔ توجاننا چاہئے کہ تزکیہ نفس دراصل حضرات انبیاء علیہم السلام کا منصب اور ان کا مقام ہے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے کہ وَیُزَکِّیْہِمْ اور پھر آپ کے بعد یہ رتبہ وراثتاً ونیابۃً بزرگان دین کو بھی ملتا ہے،چنانچہ یہ حضرات سالکینِ طریق نفوس کا تزکیہ کرواتے ہیں ۔لہٰذا تزکیہ حاصل کرنے کے لئے دوچیزیں ضروری ہیں ایک تو یہ کہ شیخ محقق سے صحیح تعلق قائم کیا جائے، دوسرے یہ کہ ا س کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کیاجائے ۔ لیکن آج ہم نے ان دونوں باتوں کو چھوڑ دیاہے یعنی نہ تو مشائخ کے یہاں جایا جاتا ہے ا ور نہ ہی ان کی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے پھر تزکیہ ہوتو کیسے ہو۔ ہرزمانے میں اس کا طریق بزرگان دین کی صحبت رہا ہے اسی صحبت کی وجہ سے صحابہ کرام کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا لہٰذا آج بھی اس کا طریق یہی ہے ۔ اب اگر نہ تو بزرگوں کی خدمت میں جایا جائے اور نہ ان سے خط وکتابت ہی کے ذریعہ کوئی تعلق رکھا جائے تو پھر نفع کی کیا صورت ہو۔ لوگ اس زمانے میں صرف مطالعہ کتب کو کافی سمجھتے ہیں اور اس کو صحبت سے مغنی سمجھتے ہیں تویہ صحیح نہیں ہے۔