ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
11۔ ایک بار کسی سے اظہار خفکی کے وقت فرمایا کہ میں بھی بشر ہوں اور بشر بھی وہ جس میں با جارہ ہے فاطمہ نہیں ۔ 12۔ فرمایا کہ آج کل کے اکثر مدعیان توکل کیا اہل تاکل ہیں ۔ 13۔ فرمایا کہ آج کل بعض طلباء کی دستار بندی تو ہوجاتی ہے لیکن ان میں دس تارتو کیا ایک تار بھی علم نہ وعقل کا نہیں ہوتا ۔ 14فرمایا کہ محبت کی عینک خود بین خاصیت رکھتی ہے جس سے چھوٹی چیزیں بھی بڑی نظر آنے لگتی ہیں ۔ اور جس طرح ایک محبت کی خورد بین ہوتی ہے ۔ جس سے چھوٹا ہز بڑا نظر آتا ہے ۔ اسی طرح ایک نظر خوردہ بین بھی ہوتی ہے جس سے چھوٹا عیب بھی بڑا دکھائی دیتا ہے ۔ 15 ۔ منصب افتاء کی ذمہ داریوں کا تذکرہ تھا فرمایا مفتی ہونا بھی قیمتی کا کام ہے مفتی کا نہیں ۔ 16۔ فرمایا کہ طالبین اصلاح کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ مسہل طلب مرض کا مفرحات سے علاج کرو ، یا جس دنیل کے اندر مادہ فاسد بھرا ہوا ہو اور آپریشن کی ضرورت ہو وہاں یہ کہا جائے کہ نہیں صرف اوپر ہی اوپر مرہم لگادو ۔ پھر وہ مادہ فاسد اندر ہی اندر پھیل کر سارے جسم کو سڑا دے ۔ 17 ۔ فرمایا کہ سیاست کی اس طریق ہی میں کیا ہر جگہ ضرورت پڑتی ہے چنانچہ میاں جنون کا اپنے اپنے شاگردوں کو اور ماں باپ کا اپنی اولاد کو تادیب کیلئے مارنا پیٹنا اور حاکموں کا اپنے محکومین مجرمین کو سزائیں دینا ۔ اور محض فہمائش کو کافی نہ سمجھنا عام طور پر بلا نکیر معمول ہے ۔ مرض بد نظری کا ایک علاج ایک مجاز مخصوص مبتلائے مرض بد نظری کا علاج یوں فرمایا کہ جب ایسی کوتاہی ہو دو مہینے تک میرے پاس خط بھیجنے کی اجازت نہیں اور ہر بار کی میعاد جداگانہ شروع ہوگی مثلا اگر ایک ہی دن میں چھ بار ایسی کوتا ہی ہوگئی تو سال بھرتک خط وکتابت بند چونکہ خط وکتاب کی ممانعت بوجہ خصوصیت تعلق بغایت شاق تھی اس لئے انہوں نے یہ تہیہ لرکیا کہ ان شاءاللہ تعالی عمر بھر کبھی ایک مرتبہ بھی اس سزا کی نوبت نہ آنے دیجائے گی چنانچہ جس جرم کا ترک محال نظر آرہا تھا اس ممانعت کے بعد اس کا ارتکاب محال نظر آنے لگا اور اتنے برے اور بڑے مرض کا ایسا آسانی کیساتھ استیصال کلی ہوگیا ۔