ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
شروع شروع میں گاہ گاہ اپنے کسی دیندار ہمددرد سے اعتدال کے ساتھ حدود شرعیہ میں رہ کر اس واقعہ غم کا کسی قدر تذکرہ بھی کرلیا کرے ۔ اس کی تائید بھی نص سے ہوتی ہے کہ حضرت اقدس ﷺ اپنے فرزند حضرت ابراہیم کی وفات پر روئے یہ بھی ارشاد فرمایا انا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون ۔ ہمدرد کی حد معتدل زیادہ ہمدردی اور ترحم سے بھی قلب کو تکلیف وتشویش ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات خلاف تسلیم اور تفویض خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں جو سخت اندیشہ کی بات ہے اس لئے دوسرے کے ساتھ اپنی ہمدردی کو بھی حد کے اندر رکھے اور وہ حد یہ ہے کہ دوسرے کو نفع تو پہونچ جائے لیکن اپنے کو ضرور نہ پہنچے ۔ اس کیلئے بس عقلی ہمدردی کافی ہے اور طبعی ہمدردی کو صرف اسی حد تک رہنے دیا جائے ۔ جس حد تک عقلی ہمدردی کے موثر ہونے کیلئے ضروری ہو ۔ واردات قلب منجانب اللہ ہیں حضرت مولانا گنگوہی نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ جو کچھ قلب پروارد ہو من جانب اللہ خیال کرو جو واردات مضر ہونگے اس مراقبہ سے سب دفع ہو جائیں گے ۔ صاحب مقام کی حیثیت فرمایا کہ صاحب مقام ہوجانے کے یہ معنی نہیں کہ سالک تغیرات احوال سے بلکل ہی خالی ہوجاتا ہے کیونکہ تغیرات عارضی تو بر بناء مصالح لوازم سلوک سے ہے جو رسوخ کامل اور تمکین تام کے حصول کے بعد بھی سالکین کے احوال میں گاہ گاہ واقع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں استبداد وامتداد وعتداد نہیں ہوتا جیسے صحت کاملہ کے حاصل اور اعتدال مزاج قائم ہوجانے کے بعد بھی موسم کے بدلنے دیگر احباب خارجی سے احیانا کبھی زکام یوجاتا ہے کبھی طبیعت کسل مند ہوجاتی ہے کبھی بخار ہوجاتا ہے ۔ مگر اس قسم کی عارضی شکایات صحت طبیہ کے منافی نہیں ہوتیں غرض اعتبار غالب حالت کا ہے مگر سالک میں آثار مقام غالب ہیں تو وہ صاحب مقام ہے گو احیانا اس میں آثار حال کا بھی ظہور ہو ، اور اگر آثار حال غالب ہیں تو وہ صاحب حال ہے گو احیانا اس میں آثار مقام بھی پائے جائیں ۔ غرض کاملین پر بھی کبھی کبھی غلبہ حال ہوجاتا ہے لیکن وہ منافی کمال نہیں ہوتا ۔ بلکہ حضرات انبیاء علیہم السلام پر بھی کبھی کبھی ان حضرات