ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
( 3 ) کثرت ریاضت اور شدت مجاہدات کی وجہ سے حسین ابن منصور حلاج کی گڑری میں بہت بڑی بڑی جوئیں ہوگئیں تھیں اور ان کو اپنے شغل سے اتنی فرصت نہ تھی کہ کپڑوں کو صاف کریں یا جوئیں ماریں ۔ ( 4 ) قصدا دھوپ میں ذکر وشغل خلاف سنت ہے اگر قصدا ایسا کیا جائے کہ سایہ کو چھوڑ کر دھوپ میں ذکر وشغل کیلئے جائے تو واقعی مذموم وخلاف سنت ہے اور قصدا ایسا نہ کیا جائے بلکہ ذکر وشغل سایہ میں شروع کیا ہو پھر دھوپ آگئی ہو مگر ذکر یا مذکور کے ساتھ غایت دلبستگی کی وجہ سے دھوپ کی خبر نہ ہوئی تو یہ حالت نہ مذموم ہے نہ خلاف سنت ۔ مگر محققین کے نزدیک کیفیات کا اتنااہتمام شدید اور نفس پر اتنا تشدد محمود نہیں من شاق شاق اللہ علیھ حدیث ہے ۔ ( 5) سب سے بڑی کرامت ولی کی یہ ہے کہ شدائد و مصائب میں بھی محبت الہٰی پر قائم رہے ۔ ( 6 ) عارف کی تعریف بقول امام قشیری بقول قشیری معرفت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کو اس سے اسماء وصفات کے ساتھ پہچانے ۔ تمام معاملات اللہ تعالٰی کے ساتھ خلوص وصدق اختیار کرے ، اخلاص رویہ اور آفات باطنہ سے پاک ہو جائے اللہ کے دروازہ پر جمارہے اور دل کو ہمیشہ اس کی طرف لگائے رکھے پھر اللہ تعالٰی بھی اچھی طرح اس کی طرف متوجہ ہو جائیں اور تمام گناہ چھوڑ کر اللہ کے لئے صادق و مخلص بن جائے اور خواطر نفسانی منطقع ہو جائیں اس کا دل کسی ایسے خاطر کی طرف مائل نہ ہو جو حق کی طرف داعی ہو ۔ جب یہ مخلوق سے اجنبی اور آفات نفس سے بری اور مخلوق پر نظر کرنے سے پاک ہوجائے اس کا باطن ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالٰی ہی سے مناجات میں لگارہے ہر لحظہ اسی کی طرف رجوع کرتا رہے اللہ تعالٰی کی طرف سے وہ سزا وار ہے ۔ کہ اسرار بطور الہام کے منکشف ہوتے رہیں جو تقدیر کی گر وشوں میں جاری وساری ہیں اس وقت اس کو عارف اور اس کی حالت کو معرفت کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص نہ غیر اللہ پر نفع و ضرر اور تاثیر کی حثیت سے نظر کر سکتا ہے نہ اس حثیت سے اس کا ذکر کرسکتا ہے چنانچہ یہی مطلب ہے ۔ حسین بن منصور حلاج کے اس قول کا کہ لا یجوز لمن یری غیراللہ ویذکر غیراللہ ان یقول عرفت اللہ الاحد الذی