ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
سے اکثر اہل میت کو جتلانا ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا ، خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے چنانچہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک صحابی ایک مد کھجور خیرات کرے اور غیر صحابہ احد پہاڑ کے برابر سونا تو وہ اس درجہ کو پہنچ سکتا یہ فرق خلوص اور عدم ہی کا تو ہے کیونکہ جو خلوص ایک صحابی کو ہوگا وہ غیر صحابی کو ہو نہیں سکتا ۔ شیخ کا فن دان ہونا شرط ہے فرمایا کہ جیسے طبیب جسمانی کا بزرگ ولی قطب غوث ہونا شرط نہیں صرف فن دان ہونا شرط ہیے اسی طرح طبیب روحانی میں شیخ کا فن دان ہونا شرط ہے بزرگ ولی قطب غوث ہونا شرط نہیں ۔ اگر بزرگ ولی قطب غوث ہو مگر فن دان نہ ہو تو وہ اصلاح نہیں کرسکتا ۔ سالک کو دستور العمل تضرع وزاری کی فضیلت فرمایا کہ خوب دیا رکھو کہ جب تک کسی کے قلب میں اس کی ہوس ہے کہ ہم کچھ ہوجائیں یہ شخص محروم ہے چاہیے کہ ہوسوں کو فنا کرے اور خدمت میں مشغول رہے اور فضل کا امید وار ہے اور مایوس نہ ہو ، اور اپنی ناقابلیت پر نظر کرکے ہراساں نہ ہو تو مگو مارابداں شہ بار نیست باکریماں کا ر ہا دشوار نیست لیکن طلب شرط ہے طلب ہو تو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے عاشق کہ شد کہ یار بجالش نظر نہ کرو اے خواجہ درد نیست و گرنہ طبیب است اگر طلب کی حقیقت نہ ہوتو صورت تو ہو وہ صورت پر بھی فضل فرمادیتے ہیں بڑی کریم رحیم ذات ہے چنانچہ یہی طلب ونیاز ہے جسے مولانا گریہ سے تعبیر فرماتے ہیں اے خوشا چشمے کہ آں گریان اوست ٭ اے خوشا آں دل کہ آں ترساں اوست درتضرع باش تاشاداں شوی ٭ گریہ کن تابے وہاں خنداں شوی درپس ہر گر یہ آخر خندہ ایست ٭ مرد آخر بیں مبارک بندہ ایست نیاز کے ساتھ تضرع وزاری اگر نیاز نہیں تو نرے رونے سے کچھ نہ ہوگا ۔ جب تک قلب اس کے ساتھ ساتھ نہ ہو ، کیونکہ