ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
ف : سبحان اللہ کیا اعلی درجہ کا مراقبہ ہے اگر اس کو پختہ کرلیا جائے تو ظاہری یا باطنی کسی قسم کی بھی پریشانی لاحق نہ ہو ۔ علاج الخیال فرمایا کہ ایک سالک مبتلائے امراض باطنہ خیالیہ کو تحریر فرمایا کہ اس کا سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیلات کا ہجوم ہو اپنے قصد واختیار سے کسی نیک خیال کی طرف فورا متوجہ ہوجانا اوت متوجہ رہنا چاہیئے اس کے بعد بھی اگر تخیلات باقی رہیں یا نئے آئیں ان کا رہنا یا آنا یقینا غیر اختیاری ہے کیونکہ مختلف قسم کے دوخیال ایک وقت میں اختیار جمع نہیں ہوسکتے بس اشتباہ رفع ہوگیا ۔ اور اگر بالا اختیار اچھے خیال کی طرف توجہ کرنے میں ذہول ہوجائے تو جب تنبیہ ہوذو ہول کا تدارک تو استغنا سے اور پھر اسی تدبیر استحضار سے کام لیا جائے ۔ سب مریدوں کیساتھ یکساں برتاؤ کی ضرورت نہیں حضرت والا نے فرمایا کہ پہلے مدتوں میں اس غلطی میں رہا کہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے بہت تنگیاں اٹھائیں لیکن پھر اللہ تعالٰی نے مجھ پر یہ حقیقت منکشف فرمادی کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ خود حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا جو معاملہ خصوصیت کا حضرات شیخین کے ساتھ تھا وہ دوسرے حضرات صحابہ کے ساتھ نہ تھا چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کو اپنی مجلس شریف میں دیکھ کرخوش ہوا کرتے تھے اور تبسم فرمایا کرتے تھے ۔ اور اسی طرح وی دونوں حضرات بھی حضور کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور تبسم فرمایا کرتے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ واجبات میں یکساں برتاؤ ضروری ہے مستحبات میں نہیں تصور شیخ کب مناسب ہے فرمایا کہ اگر بے اختیار تصور شیخ پیدا ہوجائے تو مضائقہ نہیں بلکہ نافع ہے ۔ ورنہ حق تعالٰی ہی کا تصور رکھے کیونکہ وہی مطلوب ومقصود اصلی ہے حضرت حاجی صاحب کی یہی تعلیم تھی ۔