ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
دلیل نہیں اور حضرت نبوۃ سے دین کی حثیت سے منقول ہے لہذا یہ بیعت مستحب ہوگی اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیۃ مذکورہ سے استدلال کیا ہے محض بے دلیل اور تفسیر بالرائے ہے صحیح تفسیر وابتغوا الیھ القرب بالطاعات ہے ۔ اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مد وامت ثابت نہیں ہزاروں مومن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضور سے بیعت نہیں لائے ۔ اس لئے اس کو سنت موکدہ بھی نہیں کہیں گے یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے اور ایک اس کی صورت میں ہے یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دیدینا تو یہ عمل مباح ہے لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں ۔ حتٰی کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ حضور صلی للہ علیہ وسلم سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے ۔ کیونکہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی چنانچہ اسی عادت کی بناء پر صفقہ بھی کہا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ بیعت معتادۃ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں لہذا اس کا درجہ علما یا عملا بڑھانا مثلا اس کو شرط نجات قرار دینا یا تارک طعن کرنا یہ سب غلو فی الدین اور اعتداء حدود ہے ۔ اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق تعارف کسی سے بیعت نہ ہو در خود علم کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے ، البتہ تجربہ سے یہ کلیا یا اکثر مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلب ہے وہ بدون اتباع وتربیت کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے ساتھ عادۃ حاصل نہیں ہوتا مگر اس اتباع کے لئے بھی صرف التزام کافی ہے ، بیعت متعارف شرط نہیں ولیکن ہذا آخر الکلام واللہ اعلم ۔ افراط ، تفریط سے بچنا ہی اعتدال ہے صفت بخل اپنی ذات میں مذموم نہیں ، اگریہ مادہ انسان میں نہ ہو تو انتظام نہیں ہوسکتا ہاں کسی چیز کا اعتدال سے بڑھ جانا یہ مذموم ہے ، افراط تفریط سے بچنا یہی اعتدال ہے ۔ انگریزی تعلیم اسی تعلیم انگریزی کی بدولت الحاد اور نیچر کا غلبہ زیادہ ہوگیا ہے ۔ یہ کالج کیا ہیں ، فالج ہیں کہ دین کے حسن کو بالکل تباہ برباد کردیتے ہیں ۔ ان کے تعلیم یافتہ اکثر بد دین ملحد ہوتے ہیں دماغوں میں