ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
اخلال موجب مواخذہ ہے ان شاء اللہ اس سے منشائے فساد بھی ضعیف ہوجائے گا واللہ الموفق ایک طالب نے لکھا کہ رضا بالقضا کے حصول کیلئے کوئی علاج تحریر فرمایا جائے ۔ اور اس کا معیار اور مقدار بھی کہ انسان اس کے متعلق کس قدر کا مکلف ہے ۔ جواب تحریر فرمایا کہ رضا بالقضاء کی حقیقت ترک اعتراض علی القضاء ہے اگر الم کا احساس ہی نہ ہو تو رضائے طبعی ہے اور اگر الم کااحساس باقی رہے تو رضا عقلی ہے ۔ اول حال ہے جس کا عید مکلف نہیں اور ثانی مقام ہے جس کا عبد مکلف ہے ۔ تدبیر اس کے تحصیل کی استحضار رحمت الہیہ ہے واقعات خلاف طبع ہیں ۔ نسبت کی حقیقت نسبت کی لغوی معنی ہیں لگاؤ وتعلق اور اصلاح معنی ہیں بندہ کا حق تعالٰی سے خاص تعلق یعنی اطاعت دائمہ وذکر غالب ۔ ،، اور حق تعالیٰ کا بندہ سے خاص قسم کا تعلق یعنی قبول ورضا جیسا عاشق مطیع اور وقار معشوق میں ہوتا ہے ۔ اور صاحب نسبت ہونے کی یہ علامت تحریر فرمائی کہ اس شخص کی صحبت میں رغبت الی الآخرۃ ونفرت عن الدنیا کا اثر ہوا اور اس کی طرف دیندارو کی زیادہ توجہ اور دنیاداروں کی کم مگر یہ پہچان خصوص اس کا جزواول عوام محجو بین کو کم ہوتی ہے اہل طریق کو زیادہ ۔ ف جب نسبت کے معنی معلوم ہوگئے تو ظاہر ہوگیا تو ظاہر ہوگیا کہ فاسق وکافر صاحب نسبت نہیں ہوسکتا ۔ بعض لوگ غلطی سے نسبت کے معنی خاص کیفیات کو ( جو ثمرہ ہوتا ہے ریاضت ومجاہدہ کا ) سمجھتے ہیں ۔ یہ کیفیت ہر مرتاض میں ہوسکتی ہے مگر یہ اصلاح جہلاء کی ہے ۔ مکتوب مفرح القلوب پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں کہتے ۔ سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا انصافی اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں ۔ اور مغموم بھی ایسے کہ اگر ہم جسوں پردہ غم پڑجائے تو کسی طرح جانبر نہیں سکتے ۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑا دینا واجب ہے ۔ ہاں سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب سے نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں فکر تکمیل پر موعود ہے ۔ بس اسی طرح سے عمر ختم ہوجائے تو اللہ تعالٰی کی بڑی رحمت ہے دھذا ھو معنی ماقال الرومی