ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
کی شان کے موافق غلبہ طاری ہوا ہے چنانچہ یوم بدر میں حضور عالم سردار انبیاء ﷺ نے جس ابتہال کے ساتھ دعا فرمائی تھی وہ بھی غلبہ حال سے ناشی تھا ۔ بلکہ گاہ فرشتوں سے بھی غالب منقول ہے ۔ حالانکہ ان میں انفعال بشرٰی بھی نہیں ہوتا چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا فرعون کے منہ میں کیچڑ ٹھونسنا روایت ترمذی میں مذکور ہے ۔ لیکن صاحب مقام پر جو غلبہ حال ہوتا ہے اس میں وہ حدود سے خارج نہیں ہوتا بخلاف صاحب حال کے کہ وہ کبھی حدود سے خارج ہوجاتا ہے مگر اس کو گناہ نہیں ہوتا کیونکہ بوجہ مغلوبیت وہ اس وقت مرفوع القلم ہوتا ہے ۔ قبض شدید معین مقام عبدیت ہے اصطلاح صوفیہ میں ابتلاء شدید کو ہیبت سے تعبیر کرتے ہیں جو قبض کی اعلٰٰی ترین قسم ہے جس کا طریان کاملین ہی پر ہوتا ہے ایسے شدید قبض میں ثابت رہنے کے بعد سالک بعون اللہ تعالیٰ مقام عبدیت میں (جواعلیٰ ترین مقام سلوک ہے ) نہایت متمکن اور راسخ القدم ہوجاتا ہے کیونکہ متصرف حقیقی کے تصرفات عظیمہ کو خود اپنے اندر مشاہدہ کرلینے کے بعد اس کو اپنا ہیچ در ہیچ لاشی محض ہونا روز روشن کی طرح مشاہد ہوجاتا ہے اور اس مشاہدہ عجز کی بدولت وہ بفضلہ تعالیٰ نزول کامل سے ( جو ترقیات باطنہ کی انتہائی منزل ہے ) مشرف و ممتاز اور سر بلند و سرفراز ہوجاتا ہے ۔ نیز چونکہ تغیرات احوال قلب کا اس کو خوب اچھی طرح اور ذاتی طور پر تجربہ ہوچکا ہوتا ہے اس لئے عدم غلبہ ہیبت کی حالت میں بھی وہ عظمت وجلال خداوندی اور شوکت وہیبت ، قضاو قدر الہی سے ہمیشہ تر ساں ولرزا ہی رہتا ہے اور اچھی سے اچھی باطنی حالت کو بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے اس کو کبھی عجب و ناز کا واہمہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ بر بناء تجربہ سابق وہ اس حالت کو حدوثا محض موہبت خدا اور بقاء ہر وقت زیر تصرف رب العلاء یقین کئے ہوتا ہے غرض استحضار عظمت اس کا حال دائمی اور غایت ادب واحترام حضرت ذوالجلال والا کرام اسکا اقتضائے طبعی اور تفویض کامل وفنائے تام اس کا شعار زندگی ہوجاتا ہے یا بطور حاصل یوں کہئے کہ عبدیت محضہ اس کی صفت لازمہ اور بندگی وسرافگندگی اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے ۔