ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
تو بقول حضرت والا شدت نہیں حدت ہے جو اقتضائے ایمان ہے تشدد نہیں تسدد ہے درشتی نہیں درستی ہے جو عرصہ دراز کے تجربوں کے بعد قائم کئے گئے ہیں ۔ اصول صحیحہ اصل میں مسائل شرعیہ ہیں فرمایا کہ میرے اصول صحیحہ اصل میں مسائل شرعیہ ہیں جس میں بیشمار مصالح دینیہ ودنیویہ مضمر ہیں اور اصول صحیحہ کی پابندی کو سختی کہنا سراسر زیادتی ہے کیونکہ جو قانون اپنی ذات میں تو سہل ہو مگر اس کی پابندی سختی سے کرائی جائے اس کو سخت نہیں کہا جاتا جیسے نماز کہ اس کے سارے ارکان بہت ہی سہل ہیں اور بحالت عذر تو اس میں اور بھی سہولتیں اور گنجائش رکھ دی گئی لیکن اس کی پابندی بہت سختی کے ساتھ کرائی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض ائمہ کے نزدیک تو تارک صلوۃ واجب القتل ہے ۔ سختی و مضبوطی کا فرق فرمایا کہ اگر اصول تو ہوں نرم لیکن ان کی پابندی سختی کے ساتھ کرائی جائے تو یہ سختی نہیں بلکہ مضبوطی ہے جیسے ریشم کا رسا نرم تو ایسا کہ چاہے اس میں گرہ لگا لو لیکن ساتھ ہی مضبوط ساتھ اتنا کہ اگر اس سے ہاتھی کو باندھے دیا جائے تو وہ اس کو توڑ نہیں سکتا ۔ اصول صحیحہ کو مقتضائے طبعی بنانے کی ترغیب فرمایا کہ میں فقط دوسروں ہی کو اصول صیحہ کا پانند نہیں بناتا بلکہ اپنے آپ کو بھی تو پابند کرتا ہوں اور بہ تکلف وتصنع نہیں بلکہ اللہ کا شکر ہے کہ اصول صحیحہ کی پابندی میرا مقتضائے طبعی ہوگیا ہے گو اس میں کسی قدر مشقت بھی ہو اور گو اس کا تعلق میرے محکومین اور تابعین ہی سے ہوکر کیونکہ اصول صحیحہ بہرحال قابل احترام ہیں ۔ یہاں تک کہ اکثر اہل معاملہ کو میری رعایت اصول کا علم بھی نہیں ہوتا لیکن میرے قلب کو تو تسلی رہتی ہے کہ میں نے اصول صحیحہ کی رعایت کی کسی کو جتلانا تھوڑا ہی مقصود ہے ایک چھوٹی سی مثال یہ کہ ہے کہ جب کبھی مجھ کو اپنا حال حکیم محمد ہاشم صاحب مرحوم سے کہنا ہوتا (باوجود اس کے کہ ان کومجھ سے بہت ہی تعلق تھا ۔ یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے بیعت بھی ہوگئے تھے ) تو خود ان کے گھر جاکر اپنا حال کہتا وہ بہت شرمندہ ہوتے لیکن میں کہدیتا کہ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں محتاج کو محتاج الیہ کے پاس آنا