ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
شیخ کے قلب کا تکدر طالب کے قلب کو تیرہ ومکدر کر دیتا ہے حضرات والا نے حضرت حاجی صاحب کی ایک مثال بیان فرمائی کہ اگر کسی چھت کی میزاب کے مخرج میں مٹی ٹھونس دی جائے تو جب آسمان سے پانی برسے گا تو گو وہ چھت پر تو نہایت صاف وسفاف حالت میں آئیگا لیکن جب میزاب میں ہوکر نیچے پہونچے گا تو بالکل گندلا اور میلاد ہوکر ۔ اسی طرح شیخ کے قلب پر جو ملاء اعلٰی سے فیوض وانوار نازل ہوتے رہتے ہیں ان کا تعدیہ ایسے طالب کے قلب پرجس نے شیخ کے قلب کو مکدر کر رکھا ہے مکدر صورت ہی میں ہوتا ہے جس سے طالب کا قلب بجائے منور ومصفا ہونے کے تیرہ ومکدر ہوتا چلا جاتا ہے تکدر شیخ طالب کے داعیہ عمل کا مفوت اور دینوی وبال کا لانے والا ہے حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے شیخ کے قلب کو مکدر کرنے اور مکدر رکھنے کا طالب پر یہ وبال ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں جمیت قلب کبھی میسر نہیں ہوتی اور وہ عمرہ بھر پریشان ہی رہتا ہے لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر فعل موجب تکدر شیخ معصیت ہی ہو اسلئے ایسی صورت میں اس فعل سے براہ راست تو کوئی دینی ضرر نہیں پہونچتا لیکن بواسطہ وہ اکثر سبب ہوجاتا ہے دینی ضرر کا بھی جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اول شیخ کے قلب کا تکدر سبب ہوتا ہے طالب کے انشراح قلبی کے زوال کا اور پھر یہ عدم انشراح اکثر سبب ہوجاتا ہے کوتاہی اعمال سبب ہوجاتی ہے دینی اور اخروی وبال کا ۔ گو عدم انشراح کی حالت میں بھی اگر وہ اپنے اختیارات اور ہمت سے برابر کام لیتا رہے اور اعمال صالحہ کو بہ تکلف جاری رکھے تو پھر کوئی بھی دینی ضرر نہ پہنچے ۔ لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ انشراح کے فوت ہوجانے سے اعمال میں بھی کوتاہیاں ہونے لگتی ہیں اور اس طرح بواسطہ دینی ضرر کا بھی اکثر تحقیق ہو ہی جاتا ہے کیونکہ جو داعیہ عادیہ تھا یعنی انشراح وہ تو جاتا رہا اور بلا داعیہ اکثر کو عمل دشوار ہوتا ہے ۔ حکم بالا معتقد فیہ میں ہے حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ گو میں خود کوئی چیز نہیں لیکن جب کسی نے کسی شخص کو اپنا معتقدفیہ بنالیا اور پھر بلاوجہ اس کے ساتھ خلاف اعتقاد معاملہ کر کے اس کو مکدر کردیا تو اس صورت میں بھی ویسی مضرتیں پہنچیں گی جیسی کاملین ومقبولین کو مکدر کرنے سے پہنچتی ہیں ۔