ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
حسنات ، کی یہی تفسیر کی ہے ۔ پھر ایک بڑی رحمت یہ ہے کہ ہمارے اعمال محدود اور جزاء غیر محدود ۔ اور میں نے کہا ہے کہ وہ جزا برائے نام ہے ورنہ محض عطاہی ہے اس کی دلیل خود قرآن میں ہے جزآء من ربک عطاء حسابا الخ اس تقریر سے اس شبہ کا بھی جواب ہوگیا کہ اگر وہ جزاء ہے تو کیسی اور اگر عطا ہے تو پھر حساب کیسا ۔ جواب یہ کہ جزاء صورۃ ہے اور حقیقۃ اور حساب جزاء یا عطا کے لئے نہیں بلکہ خود اہل عطاء میں تفاوت کیلئے حساب ہوگا باقی عطا بغیر حساب ہی ہوگا ۔ اپنے بزرگوں کا طرز تحقیق : فرمایا کہ ہمارے بزرگوں میں ایک خاص بات تھی کہ خود داری کا نام ونشان نہ تھا ، ملے جلے ، ہنستے بولتے رہتے تھے مگر دل میں ایک انگارہ دہک رہا تھا ، نواب شیفۃ تو اے افسردہ دل زاہد یکے در بزم رنداں شو کہ بینی خندہ برلب ہاو آتش پارہ دردل ہا میں نے اس ہنسنے پر ایک مثال تجویز کی ہے کہ جیسے تو ہنستا ہے مگر ہاتھ لگا کر کوئی دیکھے پتہ چل جائیگا کہ کیسے ہنستا ہے ۔ ان کے قلب میں خدا کی محبت کی ایک بھری تھی ، ہر وقت خشیت کا غلہ رہتا تھا ، شب وروز آخرت کی فکر لگی تھی ۔ نقشبندی وچشتی بزرگان کے طرز کا تفاوت تحقیق : فرمایا کہ بعض نقشبندی حضرات کی رائے ہے کہ شیخ کو وقار وتحمل کے ساتھ رہنا چاہئے ، تاکہ طالبین کے قلب مین عظمت ہونے سے ان کو نفع زائد ہو ، مگر چشتیوں سے یہ ہو نہیں سکتا انکار وقار اور تحمل یہی ہے کہ کوئی وقار وتحمل نہ ہو ان کی تو بس یہ شان ہوتی ہے نباشد اہل باطن درپے ، آرائش ظاہر ٭ بہ نقاش احتیاجے نیست دیوار گلستاں را دلفریباں بناتی ہمہ زیور بستند ٭ دلبر ماست کہ باحسن خداداد آمد زیربار انددر ختاں کہ ثمر ہادارند ٭ اے خوشا سروکہ از بندغم ازاد آمد کسی کے برا بھلا کہنے سے برا ماننا طرز عشق کے خلاف ہے تحقیق : اس سے بگڑتا کیا ہے معاملہ تو اللہ کے ساتھ ہے مخلوق سے کیا لینا ہے ۔ اگر کسی کو اس کی فکر ہے تو یہ