ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
نماز سے قصد حجہیز جیش کا نہ تھا اور ہوگیا ، دونوں میں یہ امر مشترک ہے کہ اس دوسری کا اس طاعت مشغول فہیا سے قصد نہیں ہے مثلا نماز پڑھنے سے یہ غرض نہیں ہے کہ نماز میں یکسوئی کے ساتھ تجہیز جیش کریں گے پس حقیقت اخلاص تو دونوں میں یکساں ہے اس میں تشکیک نہیں عوارض کے سبب ان میں تفاوت ہوگیا اور درجہ اول اکمل ہے اور دوسرا درجہ اگر بلا عذر ہے تو غیر اکمل ہے اور اگر عذر سے ہے تو وہ بھی اکمل ہے جیسے حضرت عمر کو ضرورت تھی اور اس کا معیار اجتہاد ہے لیکن ہر حال میں اخلاص کے بالکل خلاف نہیں البتہ خشوع کے خلاف ہونا نہ ہونا نظری ہے میرے ذوق میں بصورت عذر خلاف خشوع بھی نہیں اگر ضرورت ہو ( اسی کو اوپر عذر کہا گیا ہے ) اب اس سوال کو منطبق کر لیجئے ۔ خشوع اور اخلاص کا دوسرا دقیق مسئلہ یا نماز صرف اس غرض سے پڑھتا ہے کہ کوئی ناواقف آدمی میری اس نماز کو دیکھ کر اپنی نماز درست کرے ایسی طاعت کا قصد نماز میں مخل اخلاص ہے یا نہیں ۔ تحریر فرمایا اس میں خود نماز سے مقصود غیر نماز ہے اس میں بظاہر خلاف اخلاص ہونے کا شبہ ہوسکتا ہے مگر میرے ذوق میں اس میں تفصیل ہے کہ شارع کیلئے تو یہ خلاف اخلاص نہیں کیوں کہ وہ اس صورت تبلیغ کے مامور ہیں اور غیر شارع کے لئے مامور بہ نماز میں خلاف احتیاط ہے اور خاص تعلیم کیلئے مستقل نماز کا حرج نہیں ۔ قبولیت ہدیہ میں حضرت والا کا طرز کئی مرتبہ طبیعت کا تقاضا ہوا کہ حضرت سملہ کیلئے کوئی تھوڑی سی چیز بطور ہدیہ حاضر خدمت کروں لیکن چونکہ حضرت کی طبیعت مبارک کے خلاف ہے اس لئے پیش کرنے کی جرات نہ ہوئی اور نہ عرض کرنے کی ہمت ہوئی درخواست ہے کہ اگر حضرت والا فرمائیں تو صرف دو روپیہ کی کوئی ( جو حضرت سلمہ پسند فرمائیں ) اپنے ساتھ لاکر حاضر خدمت کروں ۔ یا اگر احقر کا حاضر ہونا کسی عذر سے ملتوی ہوگیا تو کسی ایسے شخص کے ہاتھ بھیجدوں جو حضرت سلمہ کا خادم ہو ۔ تحریر فرمایا ۔ حجاب بھی ہوتا ہے مگر آپ کے تبرک سے محرومی بھی گوارا نہیں کوئی خاص چیز ذہن میں نہیں بے تکلیف عرض ہے کہ نقدا نفع ہے مگر اس سے نصف یعنی ایک روپیہ ۔