ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
کہ بہت نفع ہوگا ۔ اس طریق کا اول قدم اور آخر قدم فنا ہے حضرت والا نہایت اہتمام کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں کہ اس طریق کا اول قدم فنا ہے ( یعنی اپنے کو شیخ کے سپرد کردینا ) جس میں یہ صفت پیدا نہ ہوئی بس سمجھ لو کہ اس کو طریق کی ہوا بھی نہیں لگی ۔ اور جو بزرگوں کا قول ہے کہ طریق کا آخر قدم فنا ہے وہ بھی بالکل صحیح ہے ۔ اس سے مراد کمال فنا ہے کیونکہ فنا کے بھی تو آخر درجات ہوتے ہیں ۔ سارے طریق کا حاصل فناء وعبدیت ہے فرمایا کہ میں نے جو اپنی اس تمام عمر میں سارے طریق کا حاصل سمجھا ہے وہ فنا وعبدیت ہے پس جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو مٹایا جائے ۔ بس اسی کیلئے سارے ریاضت ومجاہدے کئے جاتے ہیں ۔ اور بس اپنی ساری عمر فنا اور عبدیت کی تحصیل ہی میں گذار دینی چاہیئے ۔ بالخصوص چشتیہ کے یہاں تو بس یہی ہے ۔ افرو ختن وسو ختن وجامہ دریدن پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت تو درد گم شو وصال این ست وبس گم شدن گم کن کمال این است وبس تخلیہ وتحلیہ دونوں میں بہ تکلف عمل کی ضرورت ہے حضرت والا تخلیہ ( یعنی رذائل دور کرنا ) اور تحلیہ ( یعنی اخلاق حمیدہ پیدا کرنا ) دونوں کے متعلق بہ تکلف عمل کرنے پر بہت زور دیا کرتے ہیں چنانچہ ایک طالب نے لکھا کہ بد نظری سے بچنا نفس پر بہت شاق ہوتا ہے کوئی تدبیر ایسی ارشاد فرما دیجئے کہ جس پر عمل کرنے سے اس فعل شنیع سے طبعا نفرت پیدا ہوجائے ۔ جواب تحریر فرمایا کہ بجز ہمت اور تحمل مشاق کے کوئی تدبیر نہیں اور معین اس کی دو چیزیں میں استحضار عقوبت اور ذکر کی کثرت یہ تو تخلیہ کے متعلق ہوا ۔ دولت یقین سے آراستہ ہونے کا طریقہ اور تحلیہ ( بالحاء المہلۃ ) کے متعلق یہ ہے کہ ایک طالب نے لکھا کہ حصول یقین کا طریقہ ارشاد فرمایا جائے ۔ جواب تحریر فرمایا کہ اول بہ تکلف عمل کرنا ۔ اس کی برکت سے یقین پیدا ہوجاتا ہے بجز اس کے اور کوئی طریقہ نہیں اور یہ اشعار بکثرت تحریرا فرمایا کرتے ہیں ( للعارف الرومی )