ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
پروائی نہ کرنا چاہیے خواہ مجمع گھٹے یا بڑھے ۔ (38) مرید کو شیخ سے نفع باطن حاصل ہونا فرمایا کہ مرید کو شیخ سے نفع باطنی حاصل ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ اس کو شیخ سے اعتقاد ہو اور شیخ کو اس مرید کی طرف سے تکدر نہ ہو ، غرض کہ تکدر شیخ یا مرید کے اعتقاد میں خلل ان دونوں کا نتیجہ مرید کیلئے محرومی ہے اگر مرید کو شیخ کے کسی فعل پر کوئی شبہ ہوجائے تو مرید کو چاہیے کہ اپنے اس شبہ کو حل تو کرے مگر اپنے شیخ سے حل نہ کرے بلکہ شیخ کے متعلقین میں سے کسی سمجھدار شخص سے اس پر شبہ کو بیان کرے اور اس سے اس شبہ کو حل کرے تاکہ مرید کے طرف سے اس کے شیخ کا قلب مکدر نہ ہو اور اگر وہ شبہ محض وسوسہ کے درجے میں ہو اور وہ وسوسہ خود بخود دفع ہوگیا اور طالب نے اس وسوسہ کے مقتضاء پر عمل بھی نہیں کیا تو ایسے وسوسہ کو شیخ سے کہنا اس طالب لے لئے مضر نہیں مگر بلا ضرورت مفید بھی نہیں بلکہ اولٰٰی یہی ہے کہ اس کا بالکل نسیت ونابود کردیا جائے اور اگر اس وسوسہ سے طالب کی طبیعت میں یہ اثر ہوا کہ اتار چڑھاو ہونے لگا گویا کہ اس کو ایک نہ رائے کا درجہ حاصل ہوگیا اور وسوسہ اس کا ناگوار بھی نہیں ہوا اور جب تک اس وسوسہ کو دلائل سے دفع نہیں کیا گیا وہ وسوسہ دفع بھی نہیں ہوا تو اگرچہ اس وسوسہ کے مقتضاء پر عمل نہیں ہوا اور گو یہ درجہ بھی وسوسہ کا غیر اختیاری ہے نیز اس وسوسہ کے غیر اختیاری ہونے کہ وجہ سے طالب پرآخرت میں موخذہ بھی نہ ہوگا ۔ مگر اس وسوسہ کو شیخ سے کہنا مناسب نہیں بلکہ خلاف ادب اورموجب تکدر شیخ ہے اس کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب یہ ایک وسوسہ ہے اور غیر اختیاری ہے تو پھر شیخ پر طالب کے اس وسوسہ کے اظہار سے شیخ کے تکدر کی کیا وجہ ، تو ایک بار ایک بات ہے لہذا اسکو ایک مثال سے سمھجئے وہ مثال یہ ہے مثلا ایک باپ نے بیٹے کو اس کو بدتمیزی پر ڈانٹا جب باپ ڈانٹ چکا اور باپ کا غصہ فرو ہوگیا تو اس کے بعد بیٹھے نے باپ سے کہا کہ ابا جس وقت آپ مجھ کو میری بدتمیزی پر ڈانٹ رہے تھے تو میرے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ میں آپ کو قتل کردوں ، مگر وہ وسوسہ دفع ہوگیا تھا تو گو وہ باپ جانتا میرے بیٹے کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ مجھ کو قتل کردے بلکہ صرف یہ ایک وسوسہ ہے جو اسکے دل میں آیا ہے اور غیر اختیاری ہے اور اس وسوسہ کی وجہ سے میرے بیٹے کو کچھ گناہ بھی نہ ہوگا ۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے ذرا سوچئے اور غور کیجئے کہ کیا اس باپ کو اس سے ناگواری نہ ہوگی ، ضرورنا گواری ہوگی ۔ اور باپ کو یہ خیال ہوگا کہ یہ کمبخت تو خطرناک ہے ساری عمر اس کی صورت نہ