ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
( ج ) بے چینی اور طبعی اضطراب گو شرعا مذموم نہیں مگر نفس کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تحریر فرمایا کہ اس تکلیف کا معالجہ فن کی غرض سے خارج ہے ۔ ( د) بسا اوقات اس کی وجہ سے دینی امور فرائض و واجباب میں خلل واقع ہونا لگتا ہے فرمایا خلل غیر اختیاری یا اختیاری ۔ ( س ) جو مصیبت قلب پر عادۃ شاق ہوتی ہے جیسے والدین یا اولاد کا انتقال ۔ اگر کسی کو بوجہ قساوت کے ایسے مصائب پر کچھ گرانی قلب پر نہ ہو تو اسی صورت میں نہ اس کو تکلیف ہوگی اور نہ صبر اور نہ اس پر ثواب ۔ ایسی صورت میں تحصیل ثواب کی کیا صورت ہے ۔ یا وہ شخس اس مصیبت پر صبر کے ثواب سے محروم رہے گا ۔ تحریر فرمایا کہ یہ عزم رکھنا کہ اگر مصیبت پر قلق ہوتو صبر کرونگا ۔ یہ بھی تحصیل ثواب صبر کے لئے کافی ہے ۔ ( ص ) مصائب کے وقت حقوق کے شرعیہ میں خلل کبھی تو اختیاری ہوتا ہے فرمایا کہ اس کا تدارک تو اختیاری ہے ۔ تدارک کرنا چاہیئے ۔ ( ط) کبھی غیر اختیاری کہ قلب ایسی پریشانی میں مبتلاء ہو جاتا ہے کہ ذہول اور غفلت کی وجہ سے دوسری طرف توجہ نہیں ہوتی ۔ فرمایا تو اس سے کوئی ضرر دینی نہیں اور مہتمم بالشان ایسے ہی ضرر سے بچنا ہے ۔ میرے نزدیک قساوت کی تفسیر یہ ہے کہ ( 1) طاعت کی طرف طبیعت کی رغبت نہیں تحریر فرمایا طبعی یا قصدی استحضار سے ۔ ( ب) اور نہ معاصی سے طبیعت میں نفرت ہے ۔ تحریر فرمایا طبعی یا قصدی استحضار ہے ۔ ( ج ) بلکہ بسا اوقات طاعات واجبہ مخلوق کے خوف ست اور ان کے طبعی ولعن کے ڈرسے ادا ہوتی ہے فرمایا یہ تو ریا ہے ۔ ( س) اور طاعات کی طرف نہ طبعی رغبت ہوتی ہے اور نہ قصدی استحضار سے اور ایسے ہی معاصی سے نفرت ۔ فرمایا رغبت ونفرت طبعیہ غیر مطلوب ہے ، رغبت ونفرت اعتقادی کافی ہے اور یہی مامور بہ ہے اس کے متقضاء پر بار بار عمل کرنے سے اکثر طبعی رغبت ونفرت بھی ہوجاتی ہے اگر نہ ہوتو بھی مضر نہیں ۔ ( ص ) قساوت سے مقصود بندہ کا یہ ہے کہ جیسے بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ حالت صلٰوۃ میں رونے