ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
کو چاہیئے کہ وہ خاص طور سے حضرت والا کی جانب متوجہ رہے اور جو قابل تحسین باتیں ہوں ان پر بشرہ سے اور اگر موقع ہوتو زبان سے اظہار بشاشت کرے کیونکہ حسب ارشاد حضرت والا یہ آداب تخاطب میں سے ہے ورنہ بےحس وحرکت اور ساکت وصامت بیٹھے رہنے سے خطاب کرنے والے کویہی پتہ نہیں چلتا کہ میرا مخاطب بات کو سمجھتا بھی ہے یا نہیں اور پھر مضامین کی آمد ہی بند ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حسب ارشاد حضرت والا آداب تخاطب میں سے یہ بھی ہے کہ سنی ہوئی بات کو بھی اس طرح سنے کہ جیسے پہلے سے سنی ہوئی نہیں ہے تاکہ بات کہنے والے کا دل افسردہ نہ ہوجائے اور جن کو مخاطب کی اجازت بھی ہو وہ بھی بلا ضرورت نہ بولیں زیادہ تر حضرت والا ہی کو کلام فرمانے دیں تاکہ سب حاضرین کو جو زیادہ تراسی غرض سے مجلس شریف میں حاضر ہوتے ہیں حضرت والا ہی کو کلام فرمادیں تاکہ سب حاضرین کو جو زیادہ تراسی غرض سے مجلس شریف میں حاضر ہوتے ہیں حضرت والا کی زبان فیض ترجمان سے مضامین نافعہ سننے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہو ۔ نیز حضرت والا کے دوران کلام میں دخل در معقولات نہ کریں نہ بے جوڑ سوالات کریں نہ اس وقت کوئی اشکال پیش کریں کہ ان سب باتوں سے کلام کا لطف جاتا رہتا ہے اور مضامین کی آمد بند ہوجاتی ہے ، اگر کسی تقریر کے متعلق ضروری بات پوچھنی ہوتو ختم مضمون کے بعد سلیقہ کے ساتھ پوچھیں بشرطیکہ مخاطبت کی اجازت بھی پہلے سے حاصل ہو ۔ پست کی جانب سے خطاب فرمایا کہ راستہ چلتے وقت پست کی جانب سے کسی قسم کا تخاطب نہایت بد تہزیبی ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ نے حضرت امام ابو یوسف کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر تم کو کوئی پست کی طرف سے خطاب کرے تو اس کا جواب مت دو کیونکہ اس نے تمہاری اہانت کی اور تم کو اس نے گویا جانور سمجھا ۔ جانوروں ہی کو پست کی طرف اسے خطاب کیا جاتا ہے ۔ اخلاص کی زیادتی بھی مانع قبول ہدیہ ہے فرمایا کہ اخلاص کی کمی تو ہدیہ قبول کرنے کی مانع ہوتی ہی ہے میرے یہاں اخلاص کی زیادتی ( یعنی زیادہ جوش محبت ) بھی منجملہ موانع کے ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تو جوش محبت میں کچھ نہیں سوجھتا جب جوش ٹھنڈا ہوگا تب حساب کا ہوش آئیگا کہ دس تو پیر ہی کو دیدیئے ۔