ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
اسی وقت اس کو ان علوم میں کمال کا درجہ صاصل ہوگیا ہے بلکہ محض اس ظن غالب پر سند دی جاتی ہے کہ اس کو ان علوم سے ایسی مناسبت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر وہ برابر درس مطالعہ میں مشغول رہے تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو کمال کا درجہ بھی حاصل ہوجائے گا ۔ پھر اگر وہ اٌپنی غفلت و ناقدری سے خود ہی اپنی اس مناسبت اور استعداد کو ضائع کردے تو اس کا الزام سند دینے والوں پر ہر گز نہیں بلکہ خود اسی پر ہے ۔ اسی طرح جو کسی کو اجازت دی جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فی الحال ہی اس کو ان اوصاف میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا ہے محض اس ظن غالب پر اجازت دی جاتی ہے کہ اس کو فی الحال تو ان اوصاف میں درجہ ضرور یہ حاصل ہوگیا ہے اور اگر وہ برابر ان کی تکمیل کی فکر اور کوشش میں رہا تو قوی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو آئندہ ان اوصاف میں کمال کا درجہ بھی حاصل ہوجائے گا ۔ حضرت والا کی اجازت کا طریقہ حضرت والا کیف اماتفق کسی کو مجاز نہیں بناتے بلکہ جب کسی کے متعلق قرائن حالیہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے تو پھر اس کے حالات کا خاص طور سے بغور تتبع فرمانے لگتے ہیں بلکہ اس تتبع حالات کیلئے بعض کا نام بھی پہلے سے بطور یاد داشت کے لکھ کر اپنے پاس رکھے لیتے ہین اور جب اس کی اہلیت کے متعلق اپنا ظاہری اطمینان اور باطنی شرح صدر بھی ہوجاتا ہے اس وقت اجازت عطا فرماتے ہیں ۔ بعد اجازت بھی شیخ سے استغنانہ چاہیے فرمایا کہ شیخ کے ہوتے ہوئے اس سے استغناء بعد تکمیل بھی نہ چاہیے ۔ کیونکہ گو مجاز ہوجانے کے بعد شیخ سے سلسلہ استفادہ جاری رکھنا درجہ ضرورت میں نہ رہے ۔ لیکن ترقیات کے لئے تو پھر اس کی حاجت رہتی ہے بلکہ اکثر احوال میں یہ افادہ درجہ ضرورت میں بھی نہیں رہتا ۔ لہذا شیخ حق سے استغناء کسی حال میں نہیں چاہیے ۔ اور جنہوں نے اپنے کو مستقل سمجھ لیا ان کی حالت ہی متغیر ہوگئی ۔ امور دینیہ میں مشورہ ضروری ہے حضرت والا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے سرپر پڑا رہے تو سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں ہی کو بڑا سمجھنے لگے ۔ اور ان سے ملا جارہے بلکہ امور دینیہ میں بوقت ضرورت ان سے مشورہ بھی لیتا رہے چنانچہ حضرت والا کا اسی پر عمل ہے ۔