ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
اتنی کم کہ کچھ تعب ہی نہ ہو ۔ بلکہ اتنی مقدار ہونی چاہیے جس میں تعب تو ہو لیکن جس کی مدادمت قابل عمل ہو کیونکہ تھوڑا تعب بھی ہو نا نفع کیلئے ضروری ہے تاکہ نفس کو کسی قدر مجاہدہ بھی کرنا پڑے ۔ مقدار ذکر کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے زمہ تو صرف اتنی مقدار رکھے جس پر دوام ہوسکے باقی جب فرصت ونشاط دیکھے تو زیادہ کرے ۔ اس میں یہ مصلحت ہے کہ ناغہ کی بے برکتی اور قلق سے حفاظت رہے گی اور یہ دونوں چیزیں مضر ہیں اور جب کبھی زیادہ کی توفیق ہوگی تو مسرت ہوگی اور ہمت بڑھے گی ذکر کا طرز نافع کیفیت ذکر کے متعلق فرمایا کرتے ہیں کہ جس طرز میں دلچسپی ہو وہی اختیار کرے کیونکہ دعا کا طرز زیادہ نافع وہی ہوتا ہے جس میں زیادہ دل لگے لیکن اس کا خاص خیال رکھے کہ قلب میں درد کے جلدی پورا کرنے کا تقاضا نہ پیدا ہونے دے ۔ ہاں اگر کسی کا طرز ہی روانی کے ساتھ ذکر کرنیکا ہوتو اس کا مضائقہ نہیں ۔ ذکر کا صحیح طریق فرمایا کہ ذکر کے وقت قلب اور زبان دونوں کو شریک رکھنا ہی طریق صحیح ہے اگر کوئی نہایت موزوں رفتار سے چلتا ہوا اور دوسرا غیر موزوں سے تو اصل مقصود منزل پر پہنچنا ہے جو دونوں رفتار س حاصل ہوجاتا ہے ۔ آگے رہی موذنیت اس میں اور مصالح زائد ہیں جس پر منزل کی رسائی موقوف نہیں قیود ذکر لطائف ستہ کی فکر موجب تشویش ہے قیود وذکر کے متعلق یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اس زمانہ کی طبائع چونکہ ضعف ہیں اس لئے اکثریہ قیود موجب تشویش ہوجاتی ہیں لہذا ان کے اہتمام میں نہ پڑھے ۔ اسی طرح لطائف ستہ کی فکر میں بھی نہ پڑے کہ یہ موجب تشویش ہے اصل چیز لطیفہ قلب ہے بس ساری توجہ اسی پر رکھے ۔ ذکر میں توجہ کا طریق فرمایا کہ ذکر کے دوران میں اگر بسہولت ہوسکے تو مذکور کی طرف ورنہ ذکر کی طرف توجہ رکھے