ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
صفت سیاست کی تائید عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحم اللہ عمر یقول الحق وان کان مرا ترکہ الحق وما لھ من صدیق اللہ تعالٰی رحمت ( خاص ) نازل فرمادے عمر پر وہ حق بات کہدیتے ہیں اگرچہ ( کسی کو عقلا یا کسی کو طبعا ) تلخ ( وناگوار ) معلوم ہو ( یعنی ان میں یہ صفت ایک درجہ میں غالب ہے ۔ اس درجہ میں غالب ہے اس درجہ کی حق گوئی نے ان کی یہ حالت کردی ) کہ ان کا کوئی ( اس درجہ کا ( دوست نہیں رہا ) جیسا تسامح وریایت کی حالت میں ہوتا ہے ) ف ۔ ترجمہ کے درمیان توضیحات سے تین شہبے رفع ہوگئے ۔ ایک یہ کہ کیا دوسرے حضرات صحابہ میں یہ صفت حق گوئی کمی کی نہ تھی ۔ دوسرا شبہ یہ کہ کیا حضرت عمر کا کوئی دوست نہ تھا تیسرا شبہ یہ کہ کیا اس مجمع خیر میں حق بات کے تلخ سمجھنے والے موجود تھے ۔ اول شبہ کا جواب یہ ہے کہ اصل صفت سب صحابہ میں مشترک تھی لکین یہ اختصاص غلبہ کے ایک خاص درجہ کے اعتبار سے ہے اور یہی توجہیہ ہے خاص خاص حضرات کیلئے خاص خاص فضائل کا حکم فرمانے کی ۔ اور اس غلبہ کا مصداق یہ ہے کہ حق کے درجہ متفاوت ہوتے ہیں ۔ ایک درجہ تو سب صحابہ میں بلکہ سب اہل حق میں مشترک ہے اور دوسرے درجہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں بعض مروت یاتسامح کو مصلحت پر ترجیح دے کر سکوت فرماتے ہیں بعض مصلحت کو مروت پر ترجیح دے کر کہہ ڈالتے ہیں ۔ پہلا درجہ نفس انصاف کا ہے اور دوسرا درجہ غلبہ کا ہے ۔ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ دوستوں کے ایک خاص درجہ کی نفی مقصود ہے یعنی اگر حضرت عمر مروت کو مصلحت پر غالب رکھ کر طرح دے جاتے تو اس حالت میں ان کے جیسے دوست ہوتے ویسے اب نہیں رہتے ۔ تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ طبعی تلخی وناگواری اور اس کے مقتضاء پر عمل نہ ہونا یہ خیریت کے منافی نہیں ۔ باقی ایسے لوگ بھی ہر زمانہ میں ہوتے ہیں جن کو عقلی تلخی بھی ہوتی ہے اگرچہ اس وقت ایسے اقل قلیل تھے ۔ کوئی حدیث کی کتاب دیکھئے اس میں جہاں اور ابواب ہیں وہاں کتاب الحدود کتاب