ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
ہیں مگر جب بلا قصد ہوں تو خلاف صدق بھی نہیں ۔ قطع تحریمہ کی نوبت اور بسا اوقات قطع تحریمہ کی نوبت آجاتی ہے فرمایا یہ تو حرام ہے نیت فعل اختیاری ہے اور مکرسہ کر نیت اور استحضار کرنا پڑتا ہے ۔ اس خیال سے کہ تحریمہ کے وقت نیت نہیں ہوئی اور عزم نہیں ہوا یا تحریمہ کی طرف توجہ نہیں ہوئی ۔ فرمایا نیت فعل اختیاری ہے اس وقت دوسری طرف توجہ قصد واختیار سے نہ ہونا چاہیئے اور بلا اختیار منافی نیت نہیں ۔ اخلاص وخشوع کا فرق جو حضرت اقدس کا ارشاد ہے ( اگرچہ ان حرکات میں نیت غیر طاعت کی نہ ہو ) اس میں اتنا شبہ ہے کہ جب وہ حرکات منکرہ ہیں تو ان میں نیت طاعت کی ہو ہی نہیں سکے گی ۔ ان میں تو بہر صورت نیت غیر طاعت ہی کی ہوگی ۔ تحریر فرمایا لازم نہیں بلکہ ممکن ہے کہ کسی چیز کی بھی نیت نہ ہو عبث حرکات ہوں جو بے پروائی یا عادت کے سبب صادر ہوں خواہ جو ارح کے حرکات ہوں یا قلب کے ۔ نماز کی حالت کسی طاعت میں غیر طاعت کا تو قصد نہ ہو مگر دوسری طاعت کا قصد ہو جیسے نماز کی حالت میں ریا کا قصد نہیں اور نہ کسی اور فعل غیر طاعت کا قصد ہے مگر نماز کی حالت میں کوئی قصدا کسی شرعی مسئلہ کا مطالعہ کرتا ہے یا کسی اور سفر طاعت کا نظام قصدا سوچتا ہے ( اگرچہ نماز سے قصد وغرض نظام سفر سوچنے کا نہ تھا ) جواب تحریر فرمایا یہ مسئلہ دقیق ہے ۔ قواعد سے اس کے متعلق عرض کرتا ہوں ۔ اس وقت دو حدیثیں میری نظر میں ہیں ایک مرفوع جس میں یہ جزو ہے صلی رکعتین مقبلا علیھما بقبلہ دوسری موقوف حضرت عمر کا قول جس میں یہ جزو ہے انی لاجھز جیشی وانا فی الصلوۃ مجموعہ روایتین سے اخلاص کے دو درجے مفہوم ہوئے ایک یہ کہ جس طاعت میں مشغول ہے اس کے غیر کا قصد ااستحضار بھی نہ ہو اگرچہ وہ بھی طاعت ہی ہو ۔ دوسرا درجہ یہ کہ دوسری طاعت کا استحضار ہوجائے ( بلا قصد یعنی جیسے