ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
عدم مناسبت کے وقت کا دستور العمل فرمایا کہ اگر شیخ کے خلاف اعتراضات اور شبہات پیدا ہوتے ہوں تو سمجھ لے کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں اوت اس کو بلا اس کی دل آزادی کئے چھوڑ دے کیونکہ نفع کا مدار یکسوئی اوع شیخ کے ساتھ حسن اعتقاد پر ہے اور اعتراضات اور شبہات کی صورت میں کہاں ۔ لہذا اس کو چھوڑ دینا مناسب ہے لیکن گستاخی عمر بھر نہ کرے کیونکہ اول اول راہ پر تو اسی نے ڈالا ہے اور اس معنی کر وہ محسن ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایسے امور کا بھی مرتکب ہو جو بظاہر خلاف سنت ہوں لیکن اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو خواہ بعید ہی سہی پھر بھی گستاخی نہ کرے ۔ جسے کسی مناسبت نہ ہو اس کا طریقہ نجات فرمایا کہ ایسا شخص جس کو کسی سے مناسبت نہ ہو ضروری احکام کا علم حاصل کرتا رہے خواہ مطالعہ سے خواہ اہل علم سے پوچھ پوچھ کر اور سیدھے نماز روزہ کرتا رہے اور جو امراض نفس اس کو اپنے اندر محسوس ہوں ان کا علاج جہاں تک ہوسکے اپنی سمجھ کے مطابق بطور خود کرتا رہے اور جو موٹے موٹے گناہ ہیں ان سے بچتا رہے اور بقیہ سے استغفار کرتا رہے کہ اے اللہ ان کا بھی مجھے احساس ہونے لگے اور ان کے معالجات بھی میری سمجھ میں آنے لگیں ، اگر مجھ میں سمجھنے کی استعداد نہ ہو تو بلا اسباب ہی محض اپنے فضل سے ان عیوب کی اصلاح کردے اس سے زیادہ کا وہ مکلف نہیں ۔ قوت فکریہ فرمایا کہ قوت فکریہ ہی سے انسان انسان ہے ، انسان اور حیوان میں بس یہی تو فرق ہے کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے قوت فکر یہ عطا فرمائی ہے اور حیوان کو نہیں انسان کو احتمالات سوجھتے ہیں اور حیوان کو نہیں ۔ علماء نے تو انسان کی یہ تعریف کی ہے کہ ایک حیوان ناطق ہے لیکن میرے نزدیک انسان کی بہ تعریف ہونی چاہئے کہ وہ ایک حیوان متفکر ہے ۔ غرض جو انسان اپنی قوت فکریہ سے کام نہ لے اور احتمالات نہ سوچے وہ انسان نہیں حیوان بصورت انسان ہے جیسے بن مانس اور جل مانس ہوتے ہیں ۔