ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
غم گیا قلب کی حیات گئی دل گیا ساری کائنات گئی حضرت والا کا سلوک تو شاہی سلوک ہے کیونکہ حضرت والا نہ ریاضت کراتے ہیں نہ مجاہدات ، ترک تعلقات کراتے ہیں ہیں نہ ترک لذات ومباحات بلکہ یہ تائید فرماتے ہیں کہ خوب راحت وآرام سے رہوتا کہ اللہ تعالٰی کی محب قلب میں پیدا ہوا اور طبیعت میں نشاط رہے جو معین عبادت ہو ۔ البتہ معصیت کے پاس نہ پھٹکو اور نفس کی ہر وقت نگرانی رکھو اور ہمت سے کام لو اور بقدر تحمل و فرصت کچھ ذکر و شغل کرتے رہو ۔ بس انشاء اللہ مقصود کا حصول یقینی ہے نہ کم کھانے کی ضرورت نہ کم سونے کی ضرورت یہ دونوں مجاہدے آج کل متروک ہیں کیونکہ طبائع میں پہلے ہی سے ضعف غالب ہے البتہ کم بولنا کم ملنا جلنا ضروری ہے لیکن نہ اتنا کم کہ جس سے قلب میں انقباض پیدا ہوجائے ، لیجئے یہ شاہی سلوک نہیں تو کیا ہے ۔ چنانچہ خود حضرت والا فرمایا کرتے ہیں کہ دورویشی کیلئے کمبل اور گڈری کی ضرورت نہیں بلکہ گر اللہ تعالٰی دے تو دوشالہ اور شاہی میں بھی درویش حاصل ہوسکتی ہے بشرطیکہ طریقہ سے حاصل کی جائے سبحان اللہ حضرت والا نے طریق کو اس قدر آسان فرمادیا ہے کہ کوئی دشواری ہی نہیں رہی اتنا کیا ہے آپ نے آساں طریق کو کہہ سکتے ہیں کہ راہ کو منزل بنادیا البتہ اگر بے اصول چل کر اس طریق کو خود ہی دشوار کرلیا جائے تو یہ طریق کا نقص نہیں بلکہ چلنے والے کا بے ڈھنگا پن ہے جو آسان سمجھو تو ہے عشق آساں جو دشوار کرلو تو دشواریاں ہیں فرمایا کہ راستہ تو بالکل صاف اور ہموار ہے لیکن لوگ خود ہی اس کو اپنے سوء احتمال اور اوہام سے دشوار کرلیتے ہیں اور خود اپنے ہاتھوں پریشانیوں میں پڑتے ہیں چنانچہ ایک مولوی صاحب جو بڑے عالم فاضل اور فہیم شخص ہیں وہ بھی اس پریشانی میں مبتلا تھے اب تک تہجد کے وقت بلا لام رم (جگانے والی گھری ) آنکھ ہی نہیں کھلتی افسوس کہ ابھی تک ان خارجی چیزوں کی احتیاط باقی ہے اب آنکھ کھل جایا کرے ۔ حضرت والا نے ان کی تسلی کی کہ آخر کس کس خارجی چیزوں کی احتیاج باقی ہے اب تک قلب میں اتنا بھی تقاضہ پیدا نہ ہوا کہ الارم کی حاجت نہ رہے ۔ اور خود بہ خود تہجد کے وقت آنکھ کھل جایا کرے ۔ حضرت والا نے ان کی تسلی کی کہ آخر کس کس خارجی چیز کی احتیاج سے بچو گے کیونکہ ایک الارم ہی کیا سینکڑوں خارجی چیزوں کی احتیاج ہے لباس کی احتیاج ہے ، مکان کی احتیاج ہے اور سکنکڑوں صروریات زندگی کی