ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
وقوع طلاق اور اثر طلاق حضرت والا نے فرمایا کہ آپ نے غور نہیں کیا یہاں دو چیزیں جدا جدا ہیں ، ایک تو وقوع طلاق اور ایک اثر طلاق ، یعنی وہ حق جو اس عورت کو مرد کے طلاق دیدینے سے حاصل ہوگیا ہے اور مراد اس حق کو چھیننا چاہتا ہے جس میں عورت کا ضرر ہے تو یہاں وہ عورت غیر مسلم کا دخل قصدا خود طلاق میں نہیں چاہتی بلکہ طلاق سے جو اس کو حق آزادی حاصل ہے جس کے استعمال نہ کرسکے سے اس کو ضرور پہنچتا ہے اس ضرر کو دفع کرنے کے لئے وہ عورت عدالت سے مدد چاہتی ہے بیر سڑ صاحب نے کہ معاف کیجئے اسی طرح ہم یہاں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یہاں عورت کا ضرر ہے اسی طرح اوقاف کے اندر گڑ بڑ ہونے میں مساکین کا ضرر ہے تو جیسے وہاں اس ضرر سے بچنے کی خاطر غیر مسلم کے دخل کا جائز رکھا گیا ہے اسی طرح یہاں اوقاف میں ضرر سے بچنے کی خاطر غیر مسلم کا دخل جائز ہونا چاہیے ۔ حضرت والا نے فرمایا کہ آپ نے غور نہیں کیا وہاں تو شوہر کے حبس سے اس عورت کا ضرر ہے اور یہاں اوقاف میں متولی کی خیانت سے مساکین کا ضرر نہیں ، بلکہ صرف عدم النفع ہے ۔ ضرر اور چیز ہے اور عدم لنفع اور چیز ہے ۔ اس کو ایک مثال سے سجھئے مثلا آپ کی جیب میں ایک سو روپیہ کا نوٹ تھا ایک شخص نے وہ آپ سے چھین لیا تو یہ آپ کا ضرر ہوا اور اگر میں میں آپ کو ایک نوٹ دینا چاہتا ہوں مگر کوئی اس نوٹ کو دینے سے منع کردے تو اس میں آپ کا ضرر کچھ نہیں ہوا بلکہ صرف عدم النفع ہوا ۔ اس پر سب لوگوں نے بیساختہ سبحان اللہ اور اصل علی کہنا شروع کیا اور بیر سڑ صاحب خاموش ہوگئے ۔ نقل یاد داشت متلق تجویز قانون نگرانی جو بوقت مکالمہ وقف کمیٹی بماہ شوال 48 ھ ان کو لکھ کر دی گئی ۔ (1) وقف کرنا ایک مالی عبادت ہے اور خالص عبادت ہے جیسے زکوۃ دینا مالی عبادت ہے اور خالص عبادت ہے ، روالمحتار وکذا علی العتق والوقف والا ضحیہ الخ (2) گو وقف کا نفع بعض اوقاف عبادہ کو بھی پہنچتا ہے جب کو ان عباد کیلئے کوئی استحقاق مقرر کردے مگر تب بھی وقف خالص عبادت رہے گا معاملہ نہ ہوگا جیسے زکوۃ خالص نفع عبادت کے لئے ہی موضوع ہے ہر دوسرے مصارف مساجد وغٰیرہ میں صرف نہیں ہوسکتی ۔ بخلاف وقف کے کہ وہ ان مصارف میں بھی شرط واقف کے موافق صرف ہوسکتا ہے ہے جس سے ثابت ہوا کہ زکوۃ کا تعلق عباد کے ساتھ بہ نسبت وقف کے