ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
تقدیر کا مسئلہ فرمایا کہ تقدیر کا مسئلہ اس لئے تعلیم کیا گیا ہے کہ مسلمان کو ناکامی پر حسرت نہ ہو اور حسرت میں ہمت نہ گھٹے تو یہ مسئلہ ہمت بڑھانے کو سکھلایا گیا تھا ، اب لوگ الٹا سمجھ گئے کہ کچھ نہ کرو ، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ یہ سب کمی علم کی ہے ۔ کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچادیتی ہے فرمایا کہ جو عمل خلوص اور محبت سے خالی ہوگا وہ بے مغز کا بادام ہے ، بے رس کا آم اس کے پیدا کرنے کی تو کوشش کرتے رہنا چاہیے مگر جب تک نہ اس وقت تک اس کی نقالی کو بھی بے کار نہیں سمجھنا چاہیے اس لئے کہ کبھی صورت بھی سیرت تک پہنچادیتی ہے ، اصل میں تعمیر الظاہر والباطن کی ضرورت ہے اگر اجتماعا نہ ہوتو تعا قبا سہی ، ہمارے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ عمل ریا سے بھی ہو اس کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کرتا رہے اس لئے کہ ریا سے عادت ہوجاتی ہے اور عادت سے عبادت ۔ جوش کا نہ ہونا نقص نہیں فرمایا کہ لوگ جوش نہ ہونے کو نقص سمجھتے ہیں یہ تو محض خیال ہی خیال ہے بعض کو محبت ہوتی ہے عمل میں خلوص بھی ہوتا ہے مگر جوش نہ ہونے کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا مگر جوش کوئی مقصود چیز نہیں یہ اختلاف فطری ہے بعض میں ضبط ہوتا ہے اور بعض میں جوش وخروش ۔ فضیلت کی حقیقت فرمایا کہ کسی صفت میں اپنے کو دوسرے سے اکمل سمجھنا جائز ہے کیونکہ وہ حسی چیز ہے مگر افضل سمجھنا ناجائز ہے کیونکہ وہ غیبی چیز ہے فضیلت کی حقیقت ہے کثرت ثواب عنداللہ جس کا حاصل مقبولیت ہے مثلا ایک شخص کے ایک آنکھ ہے اور دوسرے کے دو تو دو والے کو یہ سمجھنا کہ میں اکمل ہوں ، میرے پاس خدا کی دی ہوئی نعمت ہے یہ جائز ہے مگر اس سے افضل سمجھنا جائز نہیں کیونکہ آنکھ کو قرب عنداللہ میں کوئی دخل نہیں یا ایک شخص عالم ہے اور ایک جاہل تو یہ اکمل اکمل تو ہے مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے افضل جاہل ہے یا عالم کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عالم کے لئے افضل ہونا بھی لازم ہے ممکن ہے اس جاہل