ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
القصاص ، کتاب التعزیرات بھی ہیں معلوم ہوا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر سیاستکا استعال اور جرائم کے ارتکاب پر سزاؤں کی تنقید کی جائے ۔ اپنے نفس کے ساتھ سوء ظن رکھنا حضرت خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت والا اپنے نفس کے ساتھ ہمیشہ سوء ظن رکھتے ہیں اور گو مواقع ضرورت ومصلحت میں سیاست کا استعمال فرماتے ہیں لیکن ہر واقعہ کے بعد بار باراظہار افسوس وندامت بھی حالا وقالا وعملا فرماتے ہیں یہاں تک کہ بعض مرتبہ تو اسی رنج وافسوس میں رات رات بھر نیند نہیں آئی اور بعض مواقع پر حضرات والا کو معافی مانگتے ہوئے اور بعض صورتوں میں مالی تدارک فرماتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ اور یہ تو ہمیشہ دیکھا بلکہ اس کا خود بھی ذاتی تجربہ کیا کہ حضرت والا کی خفگی مفتاح عنایات وتو جہات ودعوت خاصہ زائد ہوجاتی ہے اور اسی سوئ ظن بنفسھ کی وجہ سے حضرت والا نے معترضین کے مقابلہ میں کبھی ردکی کوشش نہیں فرمائی بلکہ ان کے اعتراضوں پر بھی بالخصوص جہاں نیک نیتی کا تھا اس نیت سے نظر ثانی فرمائی کہ اگر ان اعتراضات میں کوئی امر واقعی قابل قبول ہوتو اس کو قبول کر کے اس پر عمل کیا جائے ۔ بے ادبی شیخ کی زیادہ مضر ہے معصیت سے فرمایا کہ اہل اللہ کے دل دکھانے والے اور ان کے ستانے والوں کا اکثر یہی انجام ہوتا ہے کہ وہ مبتلائے آلام ومصاحب ظاہری وباطنی کردیئے جاتے ہیں ۔ جس کا بعض اوقات خود ان کو بھی احساس ہونے لگتا ہے اور پھر ان میں سے بعض متنبہ ہوکر تائب بھی ہوجاتے ہیں بالخصوص تعلق ارادت قائم کرلینے کے بعد پھر گستاخی اور بے ادبی کرنا تو خاص طور سے زیادہ موجب وبال ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس تعلق میں بعض اعتبارات سے معصیت اتنی مضر نہیں جتنی بے ادبی مضر جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ معصیت کا تعلق تو حق تعالٰی سے ہے اور چونکہ وہ تاثیر والفعال سے پاک ہیں اس لئے توبہ سے فورا معافی ہوجاتی ہے اور پھر اللہ تعالٰی کے ساتھ ویساہی تعلق پیدا ہوجاتا ہے بخلاف اس کے بے ادبی کا تعلق شیخ سے ہے اور وہ چونکہ بشر ہے اس لئے طالب کی بے ادبی سے اس کے قلب میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے جو مانع ہوجاتی ہے تعدیہ فیض سے ۔