ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
مطلوب ہے ۔ چنانچہ بیعت کی حقیقت ہے اعتقاد جازم اپنے تعلیم کرنے والے پر یعنی اس کو یہ یقین ہوکہ یہ میرا خیر خواہ ہے اور جو مشورہ دے گا وہ میرے لئے نہایت نافع ہوگا ۔ غرض اس پر پورا اطمینان ہوا اور اپنی رائے کو اس کی تجویز وتشخیص میں مطلق دخل نہ دے جیسا کہ حاذق ومشق کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے بس ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے ۔ باقی رہی بیعت کی صورت وہ اول وہلہ میں خواص کیلئے نافع عوام کے لئے البتہ اول وہلہ میں بیعت کی صورت بھی نافع ہوتی ہے کیونکہ اس سے ان کے قلب پر ایک عظمت اور شان اس شخص کی طاری ہوجاتی ہے جس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اس کے قول کو باقعت سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لئے مجبوری ہوجاتا ہے ۔ خواص کیلئے کچھ مدت کے بعد بیعت نافع ہوتی ہے کیونکہ اس کا خاصہ ہے کہ ایک خلوص پیدا ہوجاتا ہے بیعت کا لطف کب ہے ایک بار فرمایا کہ بیعت کا لطف تو جبھی ہے جب پہلے تعلیم حاصل کرلے اور پھر بیعت ہو کیونکہ ظاہر ہے کہ جب اس کو تعلیم سے نفع ہوگا تو اپنے معلم سے محبت پیدا ہوجانے کے بعد بیعت میں جو ل لطف ہوگا وہ اس کے مثل کہاں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک تو عقد کی یہ صورت ہے کہ ماں باپ نے جس کے ساتھ چاہا نکاح کردیا پھر اس کے پیدا ہوا ۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ اتفاقا اضطرار کسی پر عاشق ہوگئے پھر حدود وعفت میں نہایت سختی کے ساتھ رہ کر اس کی کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح نکاح ہو جائے چنانچہ جدوجہد بسیار اور شدید کلفت انتظار اور تمناؤں کے بعد خدا خدا کرکے اس میں کامیابی ہوئی اور نکاح ہوگیا ۔ تو اب دیکھ لیجئے کہ نکاح کی ان دونوں صورتوں کے لطف میں زمین وآسمان کا فرق ہوگا تاخیر بیعت کی ایک مصلحت ایک بار تاخیر بیعت میں یہ مصلحت بیان فرمائی کہ امید بیعت میں طالب اپنی اصلاح کی اور مناسبت پیدا کرنے کی بہت کوشش کرتا ہے کرتا ہے ورنہ اگر درخوست پر فورا بیعت کردیا جائے تو پھر بے فکر ہوجاتا ہے ۔