ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
(26) عزم کی تعریف عزم کہتے ہیں ارادہ قویہ کو یعنی ایسا پختہ ارادہ ہو کہ چاہے کیسا ہی عارض پیش آئے بشرطیکہ اختیار باقی رہے اس ارادہ میں زوال نہ ہو ۔ (27) فرمایا کہ انتفاع بالقرآن کی دو شرطیں ہیں ایک یہ کہ دین کا علم ہو دوسرے یہ کہ عمل کرنے پختہ قصد ہو علم سے سیدھا راستہ معلوم ہوگا اور عزم سے اس راستہ پر چلنا نصیب ہوسکےگا (28 ) فرمایا کہ نیکی کرتے رہو کسی کو ستاؤ مت یہی دین ہے ۔ (29) فرمایا کہ دین کا کوئی جز بھی زائد نہیں حتی کہ مستحبات بھی اپنے درجہ میں غیر زائد ہیں گو اتنا تفاوت ہے کہ واجبات کی کمی میں خسران ہے اور مستحبات کی کمی میں نقصان وحرمان ۔ (30) مستحبات بھی قابل احترام ہیں فرمایا کہ اگر آپ کو مستحبات کے ثمرات معلوم ہوجائیں تو ان کا بھی کافی اہتمام کرنے لگیں گو یہ حق تعالیٰ رحمت ہے کہ مستحبات سے ضرورت کو اٹھا لیا اس وجہ سے ہم لوگوں میں ہمت کم ہے اگر سب کو فرض کردیا جاتا تو غالبا ہم مستحبات ہی کو نہیں بلکہ فرائض کو بھی چھوڑ دیتے ، یہ مانا کہ ضرورت کو اسی سے اٹھا لیا مگر جو ثمرات اور درجات ان مستحبات پر بھی تو بلا ان کے نہ ملیں گے مستحبات کی مثال احکام کے اندر ایسی ہے جیسے عورت کے کھانوں میں چننی کو چٹنی کا بھی کتنا اہتمام ہوتا ہے کہ فرمائش کرکے چٹنی منگائی جاتی ہے ۔صرف فرائض وموکدات ادا کرلینے سے ضرورت کا مرتبہ تو پورا ہو جائیگا اور آخرت میں عذاب بھی نہ رہے گا لیکن بلا مستحبات کے جنت سونی سونی رہے گی اس کے جنت کا حصہ دوسروں کے حصہ کی نسبت ایسا رہے گا جیسا کہ کم درختوں کے باغ زیادہ درختوں واے باغ کے سامنے ، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغام جو شب معراج میں حضورﷺ کی معرفت پہنچایا گیا ہے الجنتۃ قیعان وغر اسھا سبحان اللہ والحمداللہ اس میں تعلیم ہے کہ فرائض پر بس مت کرلینا آگے بھی ہمت کرنا ۔ غرض مستحبات اہتمام کے قابل چیزیں ہیں ۔ زوائد نہیں ہیں جب کہ مستحبات بھی زوائد نہیں تو فرائض و