ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
اور اد معمول قدیمہ وازکار واشغال معمولہ فرمایا کہ مختصر اور اد کو بھی معمولی نہ سمجھا جائے اور جن اور اد پر پہلے سے مداومت ہو ان سے طالب کو دلچسپی بھی ہوتی ہے اور دل چسپی کی وجہ سے وہ سہولت اور جمیعت کے ساتھ ان پر مداومت رکھ سکتا ہے جس سے بہت نفع ہوتا ہے بہ نسبت نئے اور ادکے ۔ لہذا ان ہی کو قرار رکھنا مصلحت ہے ۔ لیکن اگر پھچلے اور اتنے زیادہ ہوں کہ اگر ان سب کو بر قرار رکھا جائے تو افکار واشغال معمولہ مشائخ کیلئے جو ذکر کیلئے زیادہ معین ہیں ۔ وقت ہی نہیں بچتا تو بجائے بعض کو بالکل حزف کرانے کے ان کی مقدار میں بضرورت کمی کرادیتا ہوں اور کمی کا معیار بفجوائے آیت کریمہ من جاء بالحسنھ فلھ عشر امثالھا یہ تجویز کر رکھا ہے کہ دسواں حصہ باقی رکھتا ہوں تاکہ کم ازکم اصل ثواب توبد ستور قائم رہے بالکل حزف کرانے کو جی نہیں چاہتا ۔ معمولات کے ناغہ میں بڑی بے برکتی ہوتی ہے حضرت والا بتا کید فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے معمول کو ضرور پورا کرلینا چاہیئے خواہ عذر کی حالت میں بے وضو ہی سہی یا چلتے پھرتے ہی سہی کیونکہ معمول کو مقرر کرلینے کے بعد ناغہ کرنے میں بڑی بے رکتی ہوتی ہے چنانچہ حدیث شریف میں بھی اس کی تاکید ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے یا عبد اللہ لاتکن مثل فلان کان یصلی باللیل ثم ترکھ یہ ایسا ہے جیسے کسی نے اپنے حاکم کے پاس آنا جانا شروع کیا اور خصوصیت کا تعلق قائم کرنے کے پھر آنا جانا موقوف کردیا تو حاکم کو بہت ناگوار ہوگا ۔ اور جوخصوصیت کا تعلق پیدا ہی نہیں کرتا اس سے کوئی شکایت نہیں ہوتی بشرطیکہ غائبانہ طاعت کا تعلق قائم رکھا جائے جو بہر حال ضروری ہے اھ ۔ طالبعلم کو ذکر وشغل سے ممانعت حضرت والا عموما ابن کو جو تحصیل علوم دینیہ میں مشغول ہیں ذکر وشغل تعلیم نہیں فرماتے تاکہ تعلیم میں حرج واقع نہ ہو کیونکہ علاوہ وقت صرف ہونے کے ذکر وشغل سے ایسی دلچسپی ہوجاتی ہے کہ پھر تحصیل علوم سے دلچسپی کم ہوجاتی ہے لیکن چونکہ اصلاح اعمال بہر حال فرض ہے اور اس میں کوئی حرج اوقات نہیں بلکہ ترک فضولیات کی وجہ سے وقت اور بچ جاتا ہے اس لئے اس کے متعلق خط وکتابت کی اجازت بلکہ کبھی ابتدا مشورہ بھی دے دیتے ہیں چنانچہ ایک خصوصیت کی جگہ فرماتے ہیں کہ چاہے مشوروں پر عمل بھی نہ کرنا لیکن اپنی اصلاح کے متعلق مجھ سے ضرور مشورے حاصل کرتے رہنا ۔ اس سے بھی ان شاء اللہ تم دیکھو گے