ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم الا حدیث یار کہ تکر ارمی کنیم ماقصہ سکندر ودارا نخواندہ ایم ازما بجز حکایت مہرودفا مپرس بسکہ در جاں فگار وچشم بیدارم توئی ہرچہ پیدامی شودازدوربند ارم توئی بس اب تو ہمنشیں ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی اکیلے بیٹھے رہتے یادان کی دلنشیں ہوتی تصوف فقہ الفقہ ہے تحقیق : فرمایا کہ لوگ یہاں آکر مجھ سے کے مسائل پوچھتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی فقہ تو دوسری جگہ بھی پوچھ لو گے یہاں مجھ سے فقہ الفقہ پوچھو جس کا دوسری جگہ اہتمام نہیں ۔ تعلق مشائخ کی ضرورت عوام کیلئے تحقیق : فرمایا کہ بعض طبائع جو ضعف ہیں وہ بعض فیوض بلا واسطہ نہیں لے سکتے ۔ اسہ واسطے اللہ تعالٰی نے اپنے اور ہمارے درمیان رسول کو بنایا کہ ہم اللہ تعالٰی تک بلا واسطہ رسول نہیں پہنچ سکتے اسی طرح ہمارے اور رسول کے درمیان وسائط ہیں کہ بلا ان وسائط کے ہم ان فیوض کو حاصل نہیں کرسکتے تھے ۔ رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کا افق بالوحی ہونا جس سے فیض بلا واسطہ رسول متوہم ہوتی ہے تو یہ بڑا اشکال ہے کہ جو بات رسول کے زہن میں بھی نہ تھی اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بتلایا دیا ۔ اس کا جواب اہل ظاہر نے جو دیا ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ غیر نبی پر فضل جزوی ہوسکتا ہے لیکن اصل جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی وہ علم حضور ہی کے واسطے سے حاصل ہوا اور وہ شق بھی حضور کے ذہن میں تھی مگر بعض دفعہ اقتضاء وقت کے لحاض سے حضور کی نظر ایک طرف زیادہ ہوتی تھی اور دوسری طرف نی ہوتی تھی اس طرف بھی وقت پر خادموں کے ذریعے سے حاضر کردی جاتی تھی ۔ اس کی ایسی مثال ہے ایک استاد جو صاحب تصنیف بھی ہو وہ اپنے کسی شاگرد کے روبرو کسی مقام کو حل کررہا ہو اور شاگرد اس موقع پر متنبہ کردے کہ حضرت آپ نے فلاں جگہ اس کو دوسری تقریر سے حل کیا ہے اور فورا اس کی نظر اس کی طرف چلی جائے تو اس کو یوں کہا جائے گا کہ شاگرد استاد سے بڑھ گیا بلکہ یوں کہا جائیگا کہ یہ استاد ہی کا ظل ہے جو اس کویاد آگیا اور اس نے متنبہ کیا ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر مشکوۃ نبوت ہی کے ونوار وبرکات تھے کہ وہ شق حاضر ہوگئی جس کو تو افق بالوحی ہوگیا تو حقیقتا