ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
موانع طریق ہوجاتی ہیں ان کا نہ ہونا زیادہ اچھا اور بے خطر ہے ۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص تو سواری گاڑی میں سفر کررہا ہے جو ہراسٹیشن پر ٹھہرتی ہوئی دلی پہچنتی ہے اور جس کی کھڑکیاں بھی کھلی ہوئی ہیں وہ شخص خوب سیر کرتا ہوا راستہ کے مناظرہ دیکھتا ہوا ٹونڈا لہ اٹا وغیرہ بیچ کے اسٹیشنوں پر ٹہرتا اور اترتا ہوا دلی پہونچا اور دوسرا اسپیشل ٹرین میں سوار کھڑکیاں بند کانپور سے جو چلا تو دھڑ دھڑ سیدھا دلی میں آکر اترا سواری گاڑی والے کیلئے یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ کسی بیچ والے اسٹیشن کے نقش ونگار دیکھ کر وہیں اترنہ پڑے ۔ اور عمر دلی پہنچنا ہی نصیب نہ ہو ۔ بس بلاکشف وکیفیات وغیرہ کے جو سلوک ہوتا ہے وہ زیادہ اسلم ہے کشف وغیرہ بعض صورتوں میں خطرناک ہوتا ہے چنانچہ ہمارے حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حجاب نورانی حجاب ظلمانی سے اشد ہوتا ہے کیونکہ حجاب ظلمانی میں تو سالک کو اس وجہ سے کوئی دھوکا نہیں ہوتا کہ اس کا مخل مقصود ہونا بالکل ظاہر ہے بخلاف حجاب نورانی کے کہ اس کی نورانیت سے دھوکہ کھا کر سالک اسی کو مقصود سمجھنے لگتا ہے ۔ اصل طریق عمل ضبط ہے حضرت والا کا ارشاد ہے کہ کیفیات کے طریان کے وقت اصل طریق عمل تو یہی ہے کہ ضبط کرے لیکن اگر غلبہ ہو اور ضبط کرنے میں تکلف ہو تو پھریہی مناسب ہے کہ اس کیفیت کا اتباع کرے تاکہ غلبہ فرو ہو اور غلبہ فرو ہوجائے اور کیفیات حد ضبط کے اندر آجائیں تو پھر ضبط کرے اور یہ بزرگوں کا ارشاد ہے کہ وارد کا مہمان عزیز سمجھے اس کا حق ادا کرے ورنہ وہ ادنیٰ بے التفاتی سے رخصت ہوجائیگا ۔ تو وارد کو مہمان جبھی کہیں گے جب اس وارد کا غلبہ ہو ۔ غلبہ سے پہلے پہلے نہ وہ مہمان ہے نہ اس کا کوئی حق قائم ہوتا ہے ۔ قبل غلبہ اگر اس کا حق ادا کیا جائے تو یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی راہ چلتے مسافر کو زبردستی اپنا مہمان بنائے اور خواہ مخواہ اس کے سر ہوجائے کہ تو تو میرا مہمان ہے آ۔ میں تیرا حق ادا کروں ۔ امیتازی شان اور کثرت ضحک و تکلم سے تحرز کی ترغیب فرمایا کہ تقوٰی اور دینداری کا اہتمام تو بہت رکھے لیکن اپنی طرف سے حتی الامکان کوئی ایسی امتیازی صورت نہ پیدا ہونے دے جس سے شہرت ہوجائے جب لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہو کبھی کبھی کسی قدر ہنس بول بھی لے ۔ تاکہ لوگوں کو خواہ مخواہ بزرگی کا گمان نہ ہو لیکن ہنسنے بولنے کی کثرت ہر گز نہ