ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
کے سامنے ضرور آئیں گے لیکن مستقل طور پر نظر اسی ایک مرکزی نقطہ پر قائم رہے گی ۔ سوم : کسی اہم واجب یا مباح یا طاعت میں قلب کو مشغول کردیا جائے ۔ چنانچہ کلمہ استرجاع کی تعلیم سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس کا حاصل ایک مراقبہ خاص ہے ۔ اور ایک عارف کا مقولہ بھی اس کا صریح مؤید ہے کما قال فی طبقات الکبرٰٰی عن الحسنین بن عبداللہ الضجی قال لا یقطعک شئی من شئٰ الا اذا کان القاطع اتم واکمل اوعلٰٰی عندک فان کان مثلہ اودھنہ فلا یقطعک فالحکم لما غلب علیٰ قلبک ۔ چہارم : ترک مشاغل مباحہ نہ کرے اور بالکل یکسوئی اختیار نہ کرے تاکہ قلب میں ایسی چیزیںبھی مہیار ہیں جو اس قسم کے خطرات کو آنے سے روکیں بفحوائے ع انائے کہ پرشد گر چوں پرد ۔ جیسے اگر کوئی شخص بوتل کو ہوا سے خالی کرنا چاہیے تو اسکی سہل صورت یہ ہے کہ اس کو پانی سے بھر دے پھر اس کے اندر ہوا نہ رہے گی ۔ نہ ہوا کا گذر ہوسکے گا ۔ لیکن مشاغل مباحہ میں تعلقات حبی کا بڑھانا داخل نہیں کہ وہ بھی مضر ہیں صرف تعلقات انتظامی و تفریحی کافی ہیں ۔مثلا انتظامات معاش ، سیرو تفریح مطالعہ تواریح وغیرہ ۔ واقعہ غم و عشق کو بقصد سوچنا اور اس میں خوض و فکر کرنا ۔ یا اس کا بکثرت تذکرہ کرنا اس سے بھی قلب ایک معتدد درجہ میں متاثر ہوکر مشوش اور مضمحل ہوجاتا ہے اس لئے اس کا انسداد بھی تدبیر نمبر سوم سے کرنا لازم ہے ۔ واقعہ حزن سے حزن طبعی ہونا ایسے موقع پر حزن غیر اختیاری ہے جومضر بھی نہیں لیکن اس کا بار بار یاد کرنا اخیتاری ہے اور مضر بھی ہے چنانچہ ایسی بناء لا تحزن اور لاتحزنی وارد ہے کیونکہ منہی عنہ ہونا دلیل ہے اختیاری ہونے کی اور جس طرح اس کا احداث یا ابقاء اختیاری ہے اسی طرح اس کا ازالہ بھی اختیاری ہے جس کا طریق تجربہ بنائید بالنص تدبیر نمبرسوم میں مذکور ہوا ۔ واقعہ غم کے تذکرہ کا اعتدال اور اس کی تائید بالنص واقعہ غم کا بلکل تذکرہ نہ کرنا اور ضبط میں مبالغہ کرنا بھی تجربہ سے مضر ثابت ہوا ہے کہ سب غبار اندر ہی اندر رہنے سے طبعیت گھٹ جاتی ہے اور اس کی قوت تحمل گھٹ جاتی ہے اس لئے مصلحت یہ ہے کہ