ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
|
صدق واخلاق جس طاعت کا ارداہ ہو اس میں کمال کا درجہ اختیار کرنا یہ صدق ہے اور اس طاعت میں غیر طاعت کا قصد نہ کرنا یہ اخلاص ہے اور یہ موقوف ہے مابہ الکمال کے جاننے پر اسی طرح غیر طاعت کے جاننے پر اس کے بعد صرف نیت اور عمل خیرو اجر رہ جاتا ہے اور یہ دونوں ( نیت وعمل ) اختیاری ہیں ۔ طریق تحصیل تو اسی سے معلوم ہوگیا ۔ آگے رہا معین وہ استحضار ہے وعدہ ووعید کا اور مراقبہ نیت کا ۔ مثال صدق کی نماز کو اس طرح پڑھنا جس کو شریعت نے صلوۃ کاملہ کہا ہے یعنی اس کو مع آداب ظاہرہ وباطنہ کے ادا کرنا ۔ علی ہزا تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتلایا ہے اس کو اختیار کرنا ۔ مثال اخلاص کی نماز میں ریاء کا قصد نہ ہو جوکہ غیر طاعت ہے رضائے غیر حق کا قصد نہ ہو جو کہ غیر طاعت ہے اور اس کے متعلقات ظاہر ہیں ، اخلاص اور خشوع خضوع کا فرق اخلاص راجع ہے نیت کی طرف اور خشوع خضوع سکون ہے جو ارح وقلب کا حرکات منکرہ ظاہرہ وباطنہ سے اگرچہ ان حرکات میں نیت غیر طاعت کی نہ ہو پس اخلاص خشوع سے مفارق ہوسکتا ہے نیت مراقبہ یہ ہے کہ اسکو دیکھ بھال رکھی جائے کہ میری نیت غیر طاعت تو نہیں ۔ وساوس وساوس جو غیر طاعت کے بلا اختیار پیش آتے ہیں ان کے دفع کرنے کا کیا علاج ہے جواب تحریر فرمایا کہ وساوس مخل نہیں اخلاص میں اول تو وہ غیر اختیاری ہیں دوسرے نماز سے وہ مقصود تو نہیں ۔ ارادہ صلوۃ کے وقت وساوس کا آنا ارادہ صلوۃ کے وقت قبیل از تحریمہ ہر چند اس کی کوشش کرتا ہوں کہ غیر طاعت کا وسوسہ قلب میں نہ آئے مگر پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی ۔ تحریر فرمایا تو محذور کیا ہوا اخلاص کے خلاف نہ ہونا اوپر معلوم ہوا البتہ اگر قصدا ہوں تو صدق کے خلاف