ملفوظات حکیم الامت جلد 22 - یونیکوڈ |
حضور میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت اس کو اپنے اعمال کی حقیقت نظر آجائیگی واللہ جو پھر ایک بھی ایسا نکل سکے جو دربار خداوندی میں پیش کئے جانے کے قابل ہو ۔ ایک نماز ہی کو دیکھ لیجئے کہ ہم لوگ اس کیا حق ادا کرے ہیں اس خشوع و خضوع کو تو جانے دیجئے جس میں کچھ دشواری ہے ۔ جس استحضار میں کوئی دشواری نہیں اس میں بھی تو ہم لوگ کوتاہی کرتے ہیں ۔ پھر آخر میں ان سے فرمایا کہ اب تمہیں نہ کبھی حالات کا خط لکھنے کی اجازت ہے نہ یہاں آنے کی جب تک تمہیں اپنے عیب نظر نہ آنے لگیں ۔ اور عیب بھی ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد آنے کی جب تک تمہیں اپنے عیب نظر نہ آنے لگیں ۔ اور عیب بھی ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد میں ، گو جب معالجہ چاہو گے تو اس میں ایک ہی ایک عیب کا علاج بتاؤں گا ۔ لیکن علاج جب شروع کروں گا جب ایسے بہت سے عیوب کی فہرست اور تفصیل لکھو گے اس درمیان میں بس صرف دریافت اور طلب دعا کیلئے خط لکھنے کی اجازت ہے اور کسی تعلق کی اجازت نہیں ۔ نتیجہ تقریر پھر ان صاحب نے لکھا کہ گذارش یہ ہے کہ جس روز سے تھانہ بھون سے آیا ہوں اس روز سے برابر غور فکر کے ساتھ ہر کام میں اپنے نفس کے ساتھ محاسبہ کر رہا ہوں اور جس مراقبہ کو مجلس مبارک میں ذکر فرمایا تھا یوں سوچے کہ یہ کام یا یہ بات حق تعالٰی کے سامنے ہوں تو کرسکتا ہوں یا نہیں ۔ تو اس مراقبہ سے معلوم ہوا کہ میری جتنی باتیں اور کام ہیں سب بے کار ہیں میرے کوئی بات اور میرا کوئی کام اس قابل نہیں کہ باری تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔ پہلے جو اپنی غلطیاں نظر نہیں آتی تھیں تو اس کی وجہ سے محض بے پروائی اور بے تو جہی تھی ۔ اس تنبیہ کے قبل میں اپنے قلب کو مثل ایک صندوقچی کے سمجھتا تھا ۔ جس پروارنش کیا ہوا اور جس کے اندر عجیب عجیب اشئاء رکھی ہوں مگر جناب کی تنبیہ کے بعد جواب اس صندوقچی کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر گوہ درگوہ ہو رہا ہے لہذا احقر نے اپنے پہلے خیال سے کہ مجھ کو اپنا کوئی عیب نظر ہی نہیں آتا تھا توبہ کی اور حضور کی تنبیہ کا یہ اثر ہوا کہ اب مجھ کو اپنے عیوب اس قدر صاف نظر آنے لگے کہ میں اپنے عیوب پر بڑی قسم کھا سکتا ہوں اور اب اس کی اجازت چاہتا ہوں کہ میں اپنے عیوب پیش کر کے ان کے علاج دریافت کروں جس پر یہ جواب حضرت والا کا گیا ۔ مبارک ہو یہ گو خاکساری کی خاک سے مل کر کھاد کا کام دے گا اورایسی اجناس پیدا ہونگی کہ روحانی غذا پیدا ہوجائیں گی ۔ دعا کرتا ہوں اور عیب پیش کرنے کی اجازت دیتا ہوں مگر ایک خط میں ایک بات سے زیادہ نہ ہو ۔