حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صحابہؓ حبشہ کی طرف دوبارہ ہجرت کرنے لگے تو اس وقت انھوں نے سب سے پہلے ہجرت کی ۔2 اُن کا باپ سعید بن العاص بن اُمیہ جب بیمار ہوا تو کہنے لگا: اگر اللہ نے مجھے اس بیماری سے شفا دی تو ابنِ ابی کبشہ (یعنی حضورﷺ ) کے خدا کی میں مکہ میں کبھی عبادت نہ ہونے دوںگا ۔ اس پر حضرت خالدؓ نے یہ دعا مانگی :اے اللہ !اسے بیماری سے شفا نہ دے۔ چناں چہ وہ اسی بیماری میں مرگیا ۔3حضورﷺکا حضرت ضِماد ؓ کو دعوت دینا حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: حضرت ضِماد ؓ مکہ میں آئے اور یہ قبیلہ اَزد شنوء ہ میں سے تھے اور یہ پاگل پن اور جنات کے اثرات وغیرہ کا جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کیا کرتے تھے۔ انھوں نے مکہ کے چند بے وقوفوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمد (نعوذ باللہ!) دیوانے ہیں۔ حضرت ضماد نے کہا: یہ آدمی کہاں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں شفا عطا فرمادے۔ حضرت ضِماد کہتے ہیں: میری حضورﷺ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اُن سے عرض کیا: میں ان خارجی اثرات کا جھاڑ پھونک سے علاج کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے میرے ہاتھوں شفا عطا فرمادیتے ہیں، تو آؤ میں آپ کا بھی علاج کروں۔ اس پر حضور ﷺ نے خطبہ مسنونہ کا ابتدائی حصہ تین مرتبہ پڑھ کر سنایا، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جس کو اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ حضرت ضِماد ؓ نے خطبہ سن کر کہا : اللہ کی قسم!میں نے کاہنوں اور جادوگروں اور شاعروں کے کلام کو بہت سنا ہے، لیکن ان جیسے کلمات کبھی نہیں سنے۔ لائیے ہاتھ بڑھائیے، میں آپ سے اسلام پر بیعت ہوتا ہوں۔ چناں چہ اُن کو حضورﷺ نے بیعت فرمالیا اور ان سے فرمایا کہ یہ بیعت تمہاری قوم کے لیے بھی ہے۔ حضرت ضِماد نے عرض کیا : بہت اچھا، میری قوم کے لیے بھی ہے۔ چناں چہ بعد میں حضورﷺ نے ایک لشکر بھیجا جن کا حضرت ضِمادکی قوم پر گزر ہوا تو لشکر کے امیر نے ساتھیوں سے پوچھا: کیا تم نے اس قوم کی کوئی چیز لی ہے؟تو ایک آدمی نے کہا: میں نے اُن کا ایک لوٹا لیا ہے۔ تو امیر نے کہا: وہ اُن کو واپس کردو، کیوں کہ یہ حضرت ضِماد کی قوم ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ضِماد نے حضورﷺسے عرض کیا کہ یہ کلمات آپ دوبارہ سنائیں، کیوں کہ یہ کلمات بلاغت کے سمندر کی گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔1 حضرت عبدالرحمن عَدَوِی کہتے ہیں کہ حضرت ضِماد ؓ نے بیان فرمایا: میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ گیا۔ وہاں میں ایک