حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس سے ضرور جنگ کروں گا، کیوںکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے کہ نماز جان کا حق ہے)۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ ایک رسی حضور ﷺ کو تو دیا کرتے تھے اور اب مجھے نہیں دیں گے تو میں اس رسی کی وجہ سے بھی ان سے جنگ کروں گا (دین میں ایک رسی کے برابر کمی بھی نہیں برداشت کر سکتا ہوں)۔ حضرت عمر فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! اُن کے یہ کہتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے (مانعینِ زکوٰۃسے) جنگ کرنے کے بارے میں حضرت ابو بکر کا پوری طرح شرح صدر فرما رکھا ہے۔ چناںچہ مجھے بھی سمجھ آگیا کہ یہ (جنگ کرنا) ہی حق ہے۔2حضرت ابو بکر صدّیق ؓ کا اللہ کے راستہ میں لشکروں کے بھیجنے کا اِہتمام کرنا، اور اُن کا جہاد کے بارے میں ترغیب دینا، اور رُوم سے جہاد کے بارے میں اُن کا صحابہ ؓ سے مشورہ فرمانا حضرت قاسم بن محمد نے لمبی حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ لوگوں میں بیان کر نے کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمد بیان کی اور حضور ﷺ پر درود پڑھا، اور پھر فرمایا کہ ہر کام کے لیے کچھ اُصول و قواعد ہوا کر تے ہیں جو اُن کی پابندی کرے گا اس کے لیے یہ اُصول و قواعد کافی ہوں گے، اور جو اللہ عزّو جل کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ہر طرح کفایت فرمائیں گے۔ تم پوری طرح محنت کرو اور اِعتدال سے چلو، کیوںکہ اِعتدال سے چلنا انسان کو مقصود تک جلدی پہنچا دیتا ہے۔ ذرا غور سے سنو! جس کے پاس ایمان نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے، اور جس کی نیت ثواب کی نہیں اس کے لیے (اللہ کی طرف سے) کوئی اَجر نہیں ہے، اور جس کی نیت (صحیح) نہیں اس کے عمل کا کوئی اعتبار نہیں۔ غور سے سنو! اللہ کی کتاب میں جہاد فی سبیل اللہ کا اتنا ثواب بتایا گیا ہے کہ اتنے ثواب کے لیے ہر مسلمان کے دل میں جہاد کے لیے وقف ہوجانے کی تمنا ہونی چا ہیے۔ جہاد ہی وہ تجارت ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتائی ہے اور جس کے ذریعہ اللہ نے (مسلمانوں کو) رسوائی سے نجات عطا فرمائی ہے اور جس کے ساتھ اللہ نے دنیا و آخرت کے شرف کو جوڑا ہے۔1 حضرت ابنِ اسحاق بن یسار حضرت خالد بن ولید ؓ کے قصے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ جب جنگِ یمامہ سے فارغ ہو گئے اور ابھی وہ یمامہ ہی میں تھے تو اُن کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے یہ خط لکھا: