حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھے۔ ’’بخاری‘‘ میں حضرت جابر ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ جب ہم اُوپر چڑھتے تھے تو اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہتے تھے، اور جب ہم نیچے اُترتے تھے تو سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے تھے۔ 3 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ میں جانے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک تو وہ جو اللہ کے راستہ میں نکل کر اللہ کا ذکر بہت کرتے ہیں، اور اللہ کا دھیان خوب رکھتے ہیں، اور چلنے میں فساد نہیں مچاتے ہیں، اور اپنے ساتھیوں کی مالی مدد اور ہمدردی کرتے ہیں، اور اپنا مرغوب اور عمدہ مال خرچ کرتے ہیں اور اُن کو جتنی دنیا ملتی ہے اس سے زیادہ وہ اس مال پر خوش ہوتے ہیں جسے وہ خرچ کرتے ہیں، اور یہ لوگ جب لڑائی کے میدان میں ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اس بات پر شرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ چلے کہ اُن لوگوں کے دلوں میں شک ہے یا انھوں نے مسلمانوں کی مدد چھوڑ دی، اور جب انہیں مالِ غنیمت میں خیانت کرنے کا موقع ملتا ہے تو اپنے دلوں کو اور اپنے اعمال کو خیا نت سے پاک رکھتے ہیں تو نہ تو شیطان انھیں فتنہ میں مبتلا کرسکا اور نہ اُن کے دل میں فتنہ کا وسوسہ ہی ڈال سکا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے اللہ اپنے دین کو عزّت عطا فرماتے ہیں اور اپنے دشمن کو ذلیل کرتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ وہ ہیں جو غزوہ میں تو نکلے لیکن نہ اللہ کا ذکر زیادہ کرتے ہیں، اور نہ انھیں اللہ کا دھیان ہے، اور نہ وہ فساد مچانے سے بچتے ہیں، اور مال خرچ کرنا پڑجائے تو بڑی ناگواری سے خرچ کرتے ہیں، اور جو مال خرچ کرتے بھی ہیں اسے اپنے اوپر تاوان سمجھتے ہیں اور ایسی باتیں اُن سے شیطان کہتا ہے۔ اور یہ لوگ جب لڑائی کے میدان میں ہوتے ہیں تو سب سے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور مدد نہ کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر پناہ لیتے ہیں اور وہاں سے دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ جب اللہ مسلمانوں کو فتح دے دیتے ہیں تو یہ سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں (اور اپنے فرضی کارنامے بیان کرنے لگ جاتے ہیں)، اور انھیں جب مالِ غنیمت میں خیا نت کرنے کا موقع ملتا ہے تو بڑی جرأت سے اللہ کے مالِ غنیمت میں خیانت کرتے ہیں اور شیطان اُن سے یہ کہتا ہے کہ یہ تو مالِ غنیمت ہے۔ جب آسودہ حال ہوتے ہیں تو اِترانے لگ جاتے ہیں، اور جب انھیں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو شیطان انھیں (مخلوق کے سامنے اپنی حاجتیں) پیش کرنے کے فتنہ میں ڈال دیتا ہے۔ ان لوگوں کو مسلمانوں کے ثواب میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ ہاں! اُن کے جسم مسلمانوں کے جسموں کے ساتھ ہیں، اور ان ہی کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن اُن کی نیتیں اور ان کے عمل مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ قیامت کے دن اُن کو اللہ تعالیٰ اِکٹھا فرمائیں گے اور پھر ان دو طرح کے لوگوں کو الگ الگ کردیں گے۔1اللہ کے راستہ میں نکل کر دعائوں کا اہتمام کرنا حضرت محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ جب حضور ﷺ مدینہ کے ارادے سے اللہ کی طرف سے