حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضورﷺ کا اللہ تعالیٰ کی دعوت دینے کے لیے جماعتوں کو بھیجنا حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو بلا کر فرمایا: تم تیاری کرلو، کیوں کہ میں تمہیں ایک جماعت کے ساتھ بھیجنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد طویل حدیث ذکر کی گئی ہے جس میں یہ مضمون ہے کہ چناں چہ حضرت عبدالرحمن روانہ ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گئے ۔ اورپھر یہ حضرات وہاں سے آگے چلے حتیٰ کہ دُوْمۃُ الجندل مقام پر پہنچ گئے۔ (یہ مدینہ منورہ اور ملک ِشام کے درمیان ایک قلعہ تھا جس کے ساتھ کئی بستیاں تھیں) چناں چہ جب دُوْمہ میں حضرت عبدالرحمن داخل ہوئے تو انھوں نے دُوْمہ والوں کو تین دن اِسلام کی دعوت دی۔ تیسرے دن اَصْبغ بن عمرو کلبی ؓ مسلمان ہوگئے جو کہ نصرانی تھے اور اپنی قوم کے سردار تھے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن نے قبیلہ جُہَینہ کے ایک آدمی حضرت رافع بن مکیثؓ کے ہاتھ حضورﷺ کی خدمت میں ایک خط بھیجا جس میں تمام حالات لکھے تو حضورﷺ نے ان کو جواب میں یہ تحریر فرمایا کہ تم اصبغ کی بیٹی سے شادی کرلو۔ چناں چہ انھوں نے اس سے شاد کرلی۔ حضرت اصبغ کی اس بیٹی کا نام تُماضِر ہے جن سے حضرت عبدالرحمن کے بیٹے ابوسلمہ پیدا ہوئے۔ 1 حضرت محمد عبدالرحمن تمیمیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے حضرت عمر وبن العاصؓ کو بھیجا تاکہ وہ عربوں کو اِسلام کی طرف جلدی آنے کی دعوت دیں۔ چوں کہ اُن کے والدعاص بن وائل کی والدہ یعنی اُن کی دادی قبیلہ بنو بلی سے تھیں اس وجہ سے انھیں قبیلہ بنو بلی کی طرف بھیجا۔ آپ اس خاندانی رشتہ د اری کی وجہ سے اس قبیلہ کو مانوس کرنا اور اس سے جوڑ بٹھانا چاہتے تھے۔ حضرت عمرو علاقہ جذام کے سلاسل نامی ایک چشمہ پر پہنچے۔ اسی چشمہ کی وجہ سے اس غزوۂ کا نام غزوۂ ذات السلاسل مشہور ہوگیا۔ جب یہ وہاں پہنچے اور انھیں زیادہ خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے حضورﷺ کی خدمت میں آدمی بھیج کرمزید مدد طلب کی۔ چناں چہ حضورﷺ نے ابو عبیدہ بن الجراحؓکو مہاجرین اولین کے ہمراہ ان کے پاس بھیجا جن میں حضرت ابوبکر وعمرؓ بھی تھے۔ آگے حدیث اور بھی ہے جیسے اَمارت کے باب میں ان شاء ا للہ آئے گی ۔ 2 حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓکو اِسلام کی دعوت دینے کے لیے یمن بھیجا۔حضرت خالد بن ولید کے ساتھ جانے والی جماعت میں میں بھی تھا۔ ہم چھ مہینے وہاں ٹھہرے۔ حضرت خالد اُن کو دعوت دیتے رہے لیکن انھوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ پھر حضورﷺ نے حضرت علی بن طالبؓکو وہاں بھیجا اور ان سے فرمایا کہ حضرت خالد کو تو واپس بھیج دیں اور اُن کے ساتھیوں میں سے جو حضرت علی کے ساتھ وہاں رہنا چاہیں وہ رہ جائیں۔ چناں چہ حضرت براء فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جو حضرت علی کے ساتھ ٹھہر گئے۔ جب ہم اہلِ یمن کے بالکل نزدیک پہنچے تو وہ بھی نکل کر ہمارے سامنے آگئے۔ حضرت علی نے آگے بڑھ کر ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے ہماری