حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سونے والو! اٹھو، کیوں کہ مکہ میں احمد (ﷺ) کا ظہورہوگیا ہے۔ چناں چہ ہم مکہ میں آئے تو آتے ہی آپ کی خبر ہم نے سنی۔ اور حضرت عثمان شروع زمانہ میں ہی حضورﷺ کے دارِ اَرقم میں تشریف لے جانے سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔3 حضرت عمار بن یاسر ؓ فرماتے ہیں: دارِ اَرقم کے دروازے پر حضرت صُہَیب بن سنانؓ سے میری ملاقات ہوئی اور اس وقت حضورﷺ دارِاَرقم میں تشریف فرما تھے۔ میں نے حضرت صُہَیب سے کہا: کس ارادے سے آئے ہو؟ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس ارادے سے آئے ہو؟ میں نے کہا : اس ارادے سے آیا ہوں کہ محمدﷺ کی خدمت میں جاکر اُن کی باتیں سنوں۔ انھوں نے کہا: میرا بھی یہی ارادہ ہے۔ چناں چہ ہم دونوں حضور ﷺکی خدمت میںحاضر ہوئے۔ آپ نے ہم پر اِسلام پیش فرمایا، ہم دونوں مسلمان ہوگئے۔ پھر اس دن شام تک ہم وہیں ٹھہرے ، پھر وہاں سے ہم چھپ کر نکلے۔ حضرت عمار اور حضرت صُہَیب تیس سے کچھ زیادہ مسلمانوں کے بعد مسلمان ہوئے۔ 1 حضرت خُبَیب بن عبدالرحمن کہتے ہیں: حضرت اَسعد بن زُرارہ اور ذکوان بن عبدِ قیس ؓ مدینہ سے مکہ عتبہ بن ربیعہ سے اپنا کوئی فیصلہ کروانے کے لیے چلے۔ وہاں آکر دونوں نے نبی اکرمﷺ کے بارے میں کچھ سنا۔ وہ دونوں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ان دونوں پر اِسلام پیش فرمایا اور اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا، وہ دونوں مسلمان ہوگئے اور عتبہ بن ربیعہ کے قریب بھی نہ گئے اور ویسے ہی مدینہ کو واپس چلے گئے اور یہ دونوں سب سے پہلے مدینہ میں اسلام کو لے کر پہنچے ۔ 2حضورﷺ کا دو سے زیادہ کی جماعت پر اسلام کی دعوت پیش کرنا حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ، ابوسفیان بن حرب اور بنو عبدالدار کے ایک آدمی اور بنو الاسد کے ابوالبَخْتَرِی اوراَسود بن عبدالمطّلب بن اسد اور زَمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی اُمیَّہ اور اُمیَّہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نُبَیہ بن حجاج سہمی اور مُنَبَّہ بن حجاج سہمی اور کم و بیش سب کے سب سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کے پیچھے کی جانب جمع ہوئے اور آپس کے مشورہ سے یہ بات طے کی کہ محمد کو آدمی بھیج کر بلاؤ اور اُن سے کھل کر بات کرو اوراُن سے اتنا جھگڑاکرو کہ لوگ سمجھ لیں کہ ہم نے پوری کوشش کی ہے۔ چناں چہ ایک آدمی کو یہ پیغام دے کر حضورﷺ کے پاس بھیجا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے بات کرنے کے لیے یہاں جمع ہیں۔ آپ جلدی سے اُن کے پاس اس خیال سے تشریف لے آئے کہ شاید اِسلام قبول کرنے کے بارے میں اُن لوگوں کی رائے بن گئی ہے، کیوں کہ آپ اُن کے ایمان لانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ اُن کو