حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنے گھر والوں سے کہا: میں ذرا ٹھہر جاتا ہوں تاکہ حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ لوں، پھر آپ کو سلام اور آپ کو اَلوداع کہہ کر چلا جائوں گا۔ تو ہوسکتا ہے حضورﷺ میرے لیے کوئی ایسی دعا فرما دیں جو قیامت کے دن پہلے سے پہنچ کر کام آنے والی چیز ہو۔ جب حضور ﷺ نماز پڑھ چکے تو یہ صحابی آپ کو سلام کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! وہ لوگ آج صبح گئے ہیں یعنی آدھے دن کے بقدر مجھ سے آ گے نکلے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! وہ اَجر وثواب کے اعتبار سے فضیلت میں تم سے اس سے بھی زیادہ آگے نکل گئے ہیں جتنا کہ مشرق ومغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔2 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک لشکر کو جانے کا حکم دیا، انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم ابھی رات کو چلے جائیں یا فرمائیں تو رات یہاں ٹھہر کر صبح چلے جائیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ تم جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں یہ رات گزارو؟ 3 حضرت ابو زُرعہ بن عمرو بن جریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ایک لشکر روانہ فرمایا، اس میں حضرت معاذ بن جبل ؓ بھی تھے۔ جب وہ لشکر چلا گیا تو حضرت عمر کی حضرت معاذ پر نگاہ پڑی۔ ان سے پوچھا: تم یہاں کیوں رُک گئے؟ انھوں نے کہا: میں نے یہ سوچا کہ جمعہ کی نمازپڑھ کر پھر چلا جائوں گا ( اور لشکر کو جا ملوں گا)۔ حضرت عمر نے فرمایا: کیا تم نے حضور ﷺ سے یہ نہیں سنا کہ اللہ کے راستہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے۔1اللہ کے راستے سے پیچھے رہ جانے اور اس میں کوتاہی کرنے پر عتاب حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک کے علاوہ اور کسی غزوہ میں حضورﷺ (کے ساتھ جانے) سے پیچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوئہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا، لیکن اس غزوہ سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کسی پر عتاب نہیں فرمایا، کیوںکہ حضور ﷺ تو صرف ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کا مقابلہ کرنے (اور اس سے مالِ تجارت لے لینے) کے ارادہ سے نکلے تھے (جنگ کرنے کا اِرادہ ہی نہیں تھا)۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا دشمن سے اچانک مقابلہ کرا دیا، پہلے سے جنگ کا کوئی اِرادہ اور پروگرام نہیں تھا۔ اور میں عَقَبہ کی اس رات کو حضور ﷺ کے ساتھ تھا جس رات حضور ﷺ سے ہم نے اِسلام پر چلنے کا پختہ عہد کیا تھا، اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ عَقَبہ کی یہ رات مجھے نہ ملتی اور اس کے بدلے میں غزوۂ بدر میں شریک ہوجاتا اگرچہ لوگوں میں غزوۂ بدر کی شہرت اس رات سے زیادہ ہے۔ اور ( غزوۂ تبوک میں) میرا قصہ (یعنی میرے شریک نہ ہونے کا قصہ) یہ ہے کہ تبوک سے پہلے کسی لڑائی میں میں اتنا قوی اور مال دار نہیں تھا جتنا