حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کہا: آپ کی قوم آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوگی جب تک آپ اُن کے خلاف کچھ کہیں گے نہیں۔ ولید نے کہا: اچھا ذرا ٹھہرو، میں اس بارے میں کچھ سوچتا ہوں ۔ کچھ دیر سوچ کر ولید نے کہا: اُن کا (محمدﷺ کا) کلام ایک جادو ہے جسے و ہ دوسروں سے سیکھ سیکھ کر بیان کرتے ہیں۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں: {ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا O وَجَعَلْتُ لَہٗ مَالاً مَّمْدُوْدًا O وَّبَنِیْنَ شُہُوْدًا O} جن کا ترجمہ یہ ہے: چھوڑ دے مجھ کو اور اُس کو جس کو میں نے بنایا اِکّا، اور دیا میں نے اُس کو مال پھیلا کر، اور بیٹے مجلس میں بیٹھنے والے ۔ 1حضورﷺ کا دو آدمیوں کو دعوت دینا حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں: حضرت ابوسفیانؓ اپنی بیوی ہندہ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر اپنے کھیت کی طرف چلے ۔ میں بھی دونوں کے آگے آگے چل رہا تھا اور میں نو عمر لڑکا اپنی گدھی پر سوار تھا کہ اتنے میں حضورﷺہمارے پاس پہنچے۔ ابوسفیان نے کہا: اے معاویہ !نیچے اتر جاؤ تاکہ محمد سوار ہوجائیں۔ چناں چہ میں گدھی سے اُتر گیا اور اس پر حضورﷺ سوارہوگئے۔ آپ ہمارے آگے آگے کچھ دیر چلے پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے ابوسفیان بن حرب! اے ہند بنت عتبہ ! اللہ کی قسم! تم ضرور مروگے، پھر تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا، پھر نیکو کار جنت میں جائے گا اور بدکار دوزخ میں۔اور میں تم کو بالکل صحیح اور حق بات بتارہا ہوں۔اور تم دونوں ہی سب سے پہلے (اللہ کے عذاب ) سے ڈرائے گئے ہو۔ پھر حضورﷺ نے {حٰمٓO تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} سے لے کر {قَالَتَا اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ O}1 تک آیات تلاوت فرمائیں۔ تو ان سے ابوسفیان نے کہا :اے محمد! کیا آپ اپنی بات کہہ کر فارغ ہوگئے؟ آپ نے فرمایا :جی ہاں ۔اورحضورﷺ گدھی سے نیچے اتر آئے اور میں اس پر سوار ہوگیا۔ حضرت ہند نے حضرت ابوسفیان کی طرف متوجہ ہوکر کہا: کیا اس جادوگر کے لیے تم نے میرے بیٹے کو گدھی سے اتارا تھا؟ ابوسفیان نے کہا :نہیں، اللہ کی قسم ! وہ جادوگر اور جھوٹے آدمی نہیں ہیں۔ 2 حضرت یزید بن رُومان کہتے ہیں:حضرت عثمان بن عفان اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ دونوں حضرت زبیر بن العوّامؓ کے پیچھے پیچھے چلے اور دونوں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے دونوں پر اِسلام کو پیش فرمایا اور قرآن پڑھ کر سنایا اور دونوں کو اِسلام کے حقوق بتائے اور ان دونوں سے اللہ کی طرف سے اِکرام و اِعزاز ملنے کا وعدہ فرمایا۔ چناں چہ وہ دونوں ایمان لے آئے اور دونوں نے تصدیق کی۔ حضرت عثمان نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ابھی ملکِ شام سے چلا آرہا ہوں۔ (اس سفر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ) ہم لوگ معان اور زَرقاء کے درمیان ٹھہرے ہوئے تھے اور ہماری حالت سونے والوں جیسی تھی کہ اچانک کسی پکارنے والے نے بلند آواز سے پکار کر کہا : اے