حیاۃ الصحابہ اردو جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت زُہری فرماتے ہیں کہ عورتیں بھی حضور ﷺ کے ساتھ غزوات میں جایا کرتی تھیں، لڑنے والوں کو پانی پلایا کرتی تھیں، اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ 2عورتوں کا اللہ کے راستہ میں نکل کر لڑا ئی کرنا حضرت سعید بن ابی زید اَنصاری ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اُمِّ سعد بنتِ سعد بن ربیع ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میں حضرت اُمّ عمارہ ؓ کے پاس گئی اور میں نے اُن سے کہا: اے خالہ جان! مجھے اپنی بات بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ میں دن کے شروع میں صبح صبح نکل کر دیکھنے لگی کہ مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ میرے پاس پانی کا ایک مشکیزہ تھا، میں چلتے چلتے حضور ﷺ تک پہنچ گئی۔ آپ اپنے صحابہ کے بیچ میں تھے اس وقت مسلمان غالب آرہے تھے اور اُن کے قدم جمے ہوئے تھے۔ پھر جب مسلمانوں کو شکست ہونے لگی تو میں سمٹ کر حضور ﷺ کے پاس آگئی اور (آپ کے سامنے) کھڑے ہو کر لڑنے لگی اور تلوار کے ذریعے کافروں کو حضور ﷺ سے دور ہٹانے لگی اور کمان سے تیر بھی چلانے لگی، مجھے بھی بہت سے زخم لگے۔ حضرت اُمّ سعد فرماتی ہیں کہ میں نے اُن کے کندھے پر ایک زخم دیکھا جو اندر سے بہت گہرا تھا۔ میں نے حضرت اُمّ عمارہ سے پوچھا کہ یہ زخم آپ کو کس نے لگا یا تھا؟ انھوں نے کہا: ابنِ قَمِئہ کافر نے۔ اللہ اسے ذلیل کرے! اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب مسلمان حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھا گنے لگے تو ابنِ قَمِئہ یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ مجھے بتائو کہ محمد (ﷺ) کہاں ہیں؟ اگر وہ بچ گئے تو پھر میں نہیں بچ سکتا ہوں ( یعنی وہ نہیں یا میں نہیں)۔ پھر میں اور حضرت مُصْعَب بن عمیر اور کچھ اور صحابہ جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے اس کے سامنے آگئے۔ اس وقت اس نے مجھ پر تلوار کا وار کیا تھا جس سے مجھے یہ زخم آگیا تھا۔ میں نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے تھے، لیکن اللہ کے دشمن نے دو زرہیں پہنی ہو ئی تھیں۔ 1 حضرت عُمارہ بنتِ غزیّہ ؓ سے روایت ہے کہ اُن کی والدہ حضرت اُم عمارہ نے غزوۂ اُحد کے دن ایک گھوڑے سوار مشرک کو قتل کیا تھا۔ اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جنگ ِاُحد کے دن دائیں بائیں جس طرف بھی میں منہ کرتا مجھے اُم عمارہ بچانے کے لیے اس طرف لڑتی ہوئی نظر آتی۔ 2 حضرت حمزہ بن سعید فرماتے ہیںکہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس چند اُونی چادریں لائی گئیں۔ ان میں ایک بہت عمدہ اور بڑی چادر تھی۔ کسی نے کہا کہ اس کی قیمت تو اتنی ہوگی یعنی بہت زیادہ قیمت بتائی۔ آپ اسے (اپنے بیٹے) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی بیوی حضرت صفیہ بنتِ ابی عبید ؓ کے پاس بھیج دیں۔ ان دنوں حضرت صفیہ نکاح کے بعد حضرت ابنِ عمر کے گھر نئی نئی آئی تھیں (یعنی ابھی رخصتی ہوئی تھی وہ دلہن تھیں)۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں یہ چادر ایسی عورت کے پاس بھیجوں گا جو ابنِ عمر کی بیوی سے زیادہ حق دار ہے۔ اور وہ ہیں اُم عمارہ نُسَیبہ بنتِ کعب ؓ۔ میں نے حضور ﷺ کو فرماتے